کیا ہماری زمین اپنے انجام کی جانب؟

Earthquake

Earthquake

تحریر : واٹسن سلیم گل

گزشتہ ہفتے انڈونیشیا کے ساحلی شہر پا لو میں ایک خوفناک زلزلہ آیا۔ ریکٹر اسکیل پر اس زلزلے کی شدد 7،5 تھی مگر اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ تھی کہ یہ زلزلہ زمین کی سطح سے محض دس کلومیٹر نیچے آیا تھا۔ زلزلے کا مرکز جتنا گہرائ میں ہوتا ہے اتنا ہی اس کی شدت زمین کی اوپر کی سطح پر کم ہوتی ہے۔ اور نقصانات کم ہوتے ہیں۔ اس زلزلے کے نتیجے میں سمندر میں 8 میٹر تک لہریں اٹھیں اور سونامی کی صورت میں شہر بہا کر لیں گئیں۔ ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ میں یہ خبر دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ کہ میری عمر میں گزشتہ دس سال میں ہونے والے زلزلوں کی شدت اورطاقت جس قدر بڑھ چکی ہے وہ زمین کی تاریخ میں پہلے کبھی نہ تھی۔ ان زلزلوں کے نتیجے میں آنے والی سونامی رہی سہی کثر پوری کر دیتی ہے۔

کیونکہ زلزلے سے عمارتیں زمین بوس ہو جاتی ہیں اور لوگ ان میں پھنس جاتے ہیں انہیں ابھی نکالنے کی کوشش ابھی شروع ہوتی ہے کہ سونامی ایک بڑا عزاب بن کر انہیں بہا لے جاتی ہے۔ اگر آپ زلزلوں اور ان کے نتیجے میں بننے وا لی سونامیوں پر تحقیق کریں تو حیران ہو جائیں گے کیوں کہ جو زلزلے پہلے سیکنڑوں سال بعد پھر دہائیوں بعد آتے تھے ان کے درمیان کے وقت میں کمی آرہی ہے اور سونامی کی تاریخ کا بھی یہ ہی حال ہے۔ زلزلوں کی شدت میں اضافے کی ایک مثال یہ ہے کہ اب بڑے زلزلے جیسے کہ 8،5 کے زلزلوں میں تیزی آرہی ہے پہلے سولویں صدی میں اس طاقت کا زلزلہ پورے سو سال میں صرف ایک بار آیا تھا سترویں صدی میں اس کی تعداد چار ہوئ انیسویں صدی سے بیسویں صدی تک میں یہ تعداد دس رہی اور اب اکسویں صدی کے آغاز میں ہی محض 18 سالوں میں چھ بار اس شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔

اسی طرح ریکٹراسکیل پر اشاریہ 9 شدت کے زلزلوں کے ریکارڈ بہت کم ملتے ہیں اور اتنی شدت کے زلزلے صدیوں کے وقفے کے ساتھ آتے ہیں اور بڑی تباہی مچاتے ہیں۔ مگر حیرت انگیز طور پر صدیوں بعد آنے والے ان زلزلوں کو میں نے اپنی عمر میں دو بار تباہی مچاتے دیکھا 2004 میں بند آچے انڈونیشیا میں 9،1 کی شدت کے زلزلے اور پھر اس کے نتیجے میں آنے والی سونامی نے دولاکھ سے زائد لوگوں کی جان لے لی۔پھر 2011 میں جاپان کے ساحلی علاقے میں اسی طاقت کے زلزے نے ہزاروں زندگیاں نگل لیں۔ میری تحقیق کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ 9،5 کی شدت کے زلزلوں کے ریکاڑد گزشتہ ہزاروں سالوں میں بہت کم نظر آئے مگر ہماری کی زندگی میں ہمیں دو بار اس طاقتور زلزلوں کو دیکھنے کا موقع ملا جو کہ یہ ثابت کرتا ہے کہ کچھ تو ہونے والا ہے اور یہ قدرت کی جانب سے ہے۔

ہمیں ڈرنا چاہئے اس وقت سے کہ اگر کہیں آنے والے زلزلے کی شدت 10 ہوئ تو اس کے نتائیج اس قدر خوفناک ہونگے کہ جس کا ہم تصور بھی نہی کرتے۔زمیں میں ہونے والی تبدیلیاں حیران کن ہیں۔ موسموں میں تبدیلیاں ہماری زمیں کے توازن کو بگاڑ رہی ہیں مگر ان کے پیچھے وجوہات ہیں۔ اور ان وجوہات کے زمہ دار ہم ہیں۔ انسانی سوچ کے مطابق ملکی وے کے اندر یا باہر اور کوئ ایسا سیارہ موجود نہی ہے جس میں زندگی کی رمق اور دمق موجود ہو ہمارا یہ خوبصورت سیارہ جس میں خدا تعالیٰ نے ہمیں ہر نعمت سے نوازا اب کیا اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والا ہے؟ کیا ہم اس کے زمہ دار ہیں؟ کیا ہم اپنی آنے والی نسل کو وراثت میں یہ تباہ شدہ گھر دے کر جارہے ہیں۔

ہماری بڑھتی ہوئ آبادی، خطرناک کیمائ اجزاء، گاڑیوں اور فیکڑیوں سے نکلنے والا دھواں، جنگلوں اور درختوں کی کٹائ نے ہمارے زمین کے غلاف کو جسے ہم اوزون کہتے ہیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ اوزون خدا تعالیٰ کی قدرت سے زمین کے گرد ایک ایسی چھننی کا کام کرتی ہے جو کہ ہماری فضاء کو سورج کی روشنی اور گرمی کو ایک حد سے زیادہ اندر آنے کی اجات نہی دیتی۔ اگر یہ اوزون نہ ہوتی تو ہم انسان سورج کی برائراست روشنی کو برداشت نہی کر سکتے تھے۔ اسی اوزون میں اب سوراخ بن رہے ہیں جس سے ہماری زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ پانی کے نایاب خزانے جن کو رب العزت نے گلئشیرز کے طور پر نسل انسانی کے لئے بچا کر رکھا ہوا تھا اب پگھل رہے ہیں۔ پانی زندگی کا دوسرا نام ہے اور اب وہ ختم ہو رہا ہے۔ دنیا جہان میں پانی کی شدید قلت ہو رہی ہے۔دوسری طرف گلشئیرز کے پگھلنے سے سمندروں کی سطع میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یعنی ایک طرف سمندروں میں پانی کا اضافہ اور دوسری جانب پینے کے پانی کی کمی کا سامنا ہے۔

انسان قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے قابل نہی ہے۔ جدید سائینس ہمیں سمندر میں اٹھنے والوں طوفانوں سے تو باخبر کر دیتی ہے مگر پھر بھی وہ اپنا کام کر جاتے ہیں ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہماری سائینس کی وجہ سے ہم ان طوفانوں کے قبل از وقت باخبر ہونے کی وجہ سے جانی نقصان کو کم سے کم کر نے میں مدد لیتے ہیں۔ مگزلزلوں کے حوالے سے ہماری سائینس ابھی بہت دور ہے۔ کیونکہ سائسدان یہ کہتے ہیں کہ زلزلے کی نشاندہی اسی وقت ہوسکتی ہے جب زمین میں حرکت شروع ہوتی ہے اس لئے انسان کے پاس صرف چند سیکنڈز ہی ہوتے ہیں۔

جاپان کے پاس سیسمو میٹرز اور چدید ٹیکنولوجی موجود ہے مگر اس کے باوجود بھی وہ قدرت کی اس ناراضگی سے عوام کو بچانے میں ناکام رہتے ہیں۔ ان کے سسٹم میں جیسے ہی زمین میں لعرزش محسوس ہوتی ہے تو سسٹم ریڈیو، ٹی وی، موبائل فون اور زیر زمین ریلوے سسٹم کو الرٹ جاری کر دیتا ہے۔ مگر زلزلے کی لہریں (پرائمری ویو) جو کہ بعض دفعہ آواز کی رفتار سے بھی زیادی تیز سفر کرتی ہیں۔ اس لئے تو وہ ایک منٹ میں ہی تباہی مچا دیتا ہے۔ اسے روکنا انسان کے بس کی بات نہی ہے۔ قدرتی آفات کی اشکال مختلف ہیں مگر ان میں تیزی آ رہی ہے۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر : واٹسن سلیم گل