کیپٹن اسفند یار بخاری شہید (تمغہ جرأت)

Captain Asfandyar Bukhari - Shaheed

Captain Asfandyar Bukhari – Shaheed

تحریر : طاہر درانی

خاندان سادات بخاری کے چشم و چراغ ، سید فیاض الحسن کے لخت جگر، اٹک کے فرزند اور بڈھ بیر کے ہیرو کی بہادری کی داستان ۔کیسے انہوں نے جوانی میں اپنی جان وطن عزیز پر قربان کر کے دشمن کو نا کو ں چنے چبوا دیے ۔دہشتگردوں کی فائرنگ سے بے گناہ نہتے 16 نمازی شہید ہوئے ، کمسن اسفند یار بخاری نے دشمنوں سے لڑتے جام شہاد ت نوش کیا۔

بقول شاعر:۔
اپنی جاں نذر کروں ، اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں
تو نے دشمن کو جلا ڈالا ہے شُعلہ بن کر
اُبھر ا ہرگام پہ تُوفتح کا نعرہ بن کر
اس شجا عت کا تجھے کیا میں صِلہ پیش کروں

اس میں کوئی شک نہیں وطن عزیز کے دفاع اور دہشتگردی کی جنگ میں جو قربانیاں پاک فوج اور اس کے جوانوں نے دی ہیں وہ قابل ستائش و صد احترام ہیں بطو ر پاکستانی ہمارا یہ فر ض بنتا ہے کہ پاک فوج کے ساتھ اپنی والہانہ عقیدت اور محبت کا کھل کر اعلان کریں اور دنیا کو ایک واضع پیغام دیں کہ پاکستانی عوام اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اگر دشمن نے میلی آنکھ سے دیکھا تو مقابلہ اکیس کروڑ فوجیوں سے ہو گا۔

اسفند یار بخاری 14 اگست کو پیدا ہوئے ، وطن کی محبت کا جذبہ اُن کے دل میں بچپن سے ہی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا تیسری جماعت کا ایک واقع آپ کی نذر کرتا ہوں۔ جب وہ آرٹ ورک کر رہے تھے تو اُن کی انگلی پر بلیڈ لگ گیا اور خون بہنے لگابچے پریشان ہو کر ٹیچر کو بلانے گئے ۔ جب ٹیچر آئی تو آرٹ بُک پر وہ اپنے خون سے لکھ چکا تھا ۔۔۔PAK ۔ ٹیچر نے ہاتھ پکڑا تو درد محسوس کر رہا تھا اور ٹیچر سے کہنے لگا”مجھے پورا پاکستان تو لکھ لینے دیتیں”وہ ایسا بہاد ر بچہ تھاجو پور ا پاکستان بچپن میں نہ لکھ سکا 18 ستمبر 2015ء کو وطن عزیز پر اپنے خون کو قربان کر کے مکمل کیا ، وہ بہت زیادہ ہونہار ، قابل طالبعلم تھا۔ہر جماعت میں اول پوزیشن لینے والا بچہ ، بچپن میں ہی سپر جینئس (Super Genius ) کا خطاب لے چکا تھا۔

وہ کمال کا لکھاری ، بے پناہ خوبیوں کا مالک ، زبردست مقرر تھا ساتویں جماعت میں ایم آر ایف کالج میں اپنے کالج کے میگزین کے لیے 9 مضمون شائع ہوئے ”بوڑھی ویگن ” کے عنوان سے مضمون لکھا تب ان کے عمر 12 سال تھی ، اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے صف اول کے طالب علموں میں شمار ہوتا تھا۔کھیلوں کے میدان میں سب سے آگے ، شطرنج کا چیمپئین مانا جاتا تھا۔سکول میں منی کمپیوٹر کا خطاب لینے والا یہ نوجوان کمال کا دماغ رکھتا تھا کبھی کیلکولیٹر کا استعمال نہیںکرتا تھا بلکہ اپنے دماغ سے کام لیتا تھا ۔بہترین تیراک (swimmer)کرکٹ کا دلدادہ الغرض اللہ نے ہر وہ کوالٹی عطا کی جو انہیں دوسروں سے منفرد کرتی تھی ہر کام میں آگے بڑھ کر حصہ لینے والا جوان تھا۔حسن ابدال کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد والدین کی خواہش تھی کہ بیٹا ڈاکٹر بنے کیونکہ وہ ایک ڈاکٹر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ان کے لیے میڈیکل میں ایڈمیشن مشکل نہیں تھا میڈیکل کا بہترین اُمیدوار تھا نمبر بھی اچھے تھے لیکن کیپٹن اسفند یار بخاری کو صرف فوج میں جانے کا جنون تھا دوستوں نے مشورہ دیا اس وقت دہشتگردی کی جنگ عروج پر ہے فوج میں جانے کا مطلب سمجھتے ہو؟ تمہارے نمبر بھی اچھے آئے ہیں کسی کالج میں داخلہ لے لو ڈاکٹر بن جائو، انجینئر بن جائو بیرون ملک جا کر عزت، دولت شہرت کما سکتے ہو تو اسفند یار بخاری کا ایک جُملہ ان تمام چیزوں پر بھاری تھا” کیا وہاں شہادت ہے؟” سب خاموش ہوگئے، ہاں جو مزہ وطن کی محبت اور قربانی میں ہے وہ مزہ دولت اور شہرت میں نہیں ، وطن کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے جب کوئی حق کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے تو اُس کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ دشمن کا سر جُھک جاتا ہے اور پھر کہا ” ( This is the time for me to join Pak Army)یہی تو وقت ہے جب میں اپنے مُلک کے لیے عملی طور پر کچھ کر سکوں ”پاکستان کی فوج ایک بہادر فوج ہے اور میں ضرور شمولیت اختیار کروں گا۔ جب اعزازی شمشیر ملی تو ماں نے کہا”یہ حق کی تلوار ہے باطل پر گرے گی” بیٹے نے صرف چند سال بعد ہی ماںکی اس بات کو سچ ثابت کر دکھایا۔جب تک مائیں اسفند جیسے بہادر سپوت پیدا کرتی رہیں گے ملک پاکستان کی طرف کوئی میلی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔

اسفند یار بخاری کا تعلق جناح ونگ سے تھا اور وہ جناح ونگ کے 48 اینٹری کے ونگ کمانڈر بھی تھے وہ پاک فوج کے 18 لانگ کورس سے پاس آوٹ ہوئے تھے وہ پاک فوج کے بہترین اور شفقت رکھنے والے آفیسر تھے ۔جب پاک فوج میں شمولیت اختیار کی تو والد کی دعائیں ساتھ تھیں اُن کی والدہ کی خواہش تھی کہ جو اعزازی شمشیر ملی ہے یہ دشمن پر کب گِرے گی؟ پھر وہ ایسی گری کہ دشمن جہنم واصل ہوئے اور اسفند یار بخاری ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے ۔اُن کے والد فیاض الحسن نے نصیحت کر رکھی تھی بیٹا خود کو کبھی بڑا نہ سمجھنا، کبھی غرور تکبر دل میں پیدا نہ ہونے دینا، اپنے جونیئرز کا خیال رکھنا اگر تمہارے دل میں ذرہ برابر بھی تکبرپیدا ہوا تو سمجھ لینا تم اپنے مشن میں ہار گئے بس آگے دیکھو۔وہ ایک فرمانبردار بیٹا تھا جس نے والد کی ایک ایک بات پر عمل کر کے ثابت کر دیا کہ وہ قابل احترام اور وطن کا عزیز کا سچا سپوت ہے جو اپنی جان تو دے سکتا ہے مگر ملک کی عزت پر آنچ نہیں آنے دے گا۔ وہ اپنے ملک اور قوم کے ساتھ بہت زیادہ مخلص تھا اپنے بھائی سے اکثر شہید کی عظمت پر گفتگو کیا کرتا تھا۔ وہ اپنے فوجی دوستوں سے کہا کرتا تھا شہادت کی خواہش تو ہر فوجی کو ہوتی ہے مگر ملتی کسی کسی کو ہے یہ کسی کو معلوم نہیں۔وزیرستان میں ایک مرتبہ اسفند یار اور ان کے گیا رہ ساتھی دہشتگردوں کے گھیرے میں آگئے ، اسفند یار نے دیکھا ہمیںباہر سے کوئی مدد نہیں مل سکتی ، اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا ابھی 12:30 کا وقت ہے ہمیں ان سے جنگ کرنی چاہیے کیونکہ ہم صرف بارہ ہیں او ر یہ تعداد میں زیادہ جنگ کے دوران جب سب شہید ہوجائیں گے ، اور کل جب پاک فوج کو یہاں فتح نصیب ہو تو انہیں پتہ چلے گا کہ 12 شہید ہوگئے اور 40 چالیس کتے مرے پڑے ہیں۔

اُن کے اندر وطن کی محبت کا جذبہ ہمیشہ بلند رہتا تھا۔ ایک مرتبہ عیدالفطر کی چھٹی گذارنے گھر آئے تو سب لوگ باتیں کر رہے تھے سب بہت زیادہ خوش تھے لیکن اسفند یار کچھ اداس تھے ، والد نے دریافت کیا کہ بیٹا کیا بات ہے تم اتنے خاموش اور اداس کیوں ہو؟ تو بیٹے نے جواب دیا مجھے آرمی پبلک سکول کے شہید بچے سونے نہیں دیتے یہ بہت بڑا سانحہ ہے ۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے ، معصوم بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے مجھے جب واقع یاد آتا ہے تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ یہ واقع نہیں ہونا چاہیے تھا عید کا دن تھا لیکن ماحول کافی اداس ہو گیا۔ دوسری صبح پاک فوج کی طرف سے فوجی آیاکہ اسفند یار پی اے ایف (PAF)کیمپ بڈھ بیر پردہشتگردوں نے حملہ کر دیا ہے یہ سنتے ہی اسفند یار نے وردی پہنی اور بھاگتا ہو ا گیا۔ جاتے ہی کہا ” سر جلدی کریں ایک اور اے پی ایس نہ ہوجائے ” وہ زیادہ نقصان پہنچا دیں گے، لکڑی کے مکانات ہیں ایک گرنیڈ ہی چلا گیا تو تباہی ہو جائے گی۔ اسفند یار اپنی ٹیم کے ہمراہ 6:30 پر پہنچا تو پتہ چلا 28 شہید اور 29 زخمی ہو چکے ہیں جبکہ میجر حبیب زخمی حالت میں سی ایم ایچ (CMH)چلا گیا ہے ۔افسران نے کہا کیپٹن اعجاز کو کمانڈ دیں تو اسفند یار نے کہا وہ ابھی چھوٹا ہے اسے کمانڈ نہ دیں۔ یہ کمانڈ مجھے دیںتو افسران نے کہا آپ کو نہیں دے سکتے آپ جی تھری (G3) کپتان ہیں۔ تو اسفند یار نے کہا ” تو کیا ہواسر” پلیز مجھے کمانڈ دے دیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں جی تھری ہوں ۔وطن نے پکارا ہے جی تھری کا کیا مطلب؟ سر یہ لوگ زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں ان کو وقت نہیں دینا چاہیے ان کو جہنم واصل کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ افسران نے اُن کے جذبے کو دیکھتے ہوئے اجازت دے دی اور یوں اسفند یار نے کمانڈ سنبھال لی۔

کمانڈسنبھالتے ہی سب سے پہلے کالونی کو محفوظ کیا ۔ اسفند یار نے دشمن کے سارے راستے بند کر دیے اور اپنے افسران سے تاریخی جملے بولے ” سر میں ان کو بطخیں بنا کر ماروں گا”7:08 منٹ پر اُس نے فون کیا اور کہا سر آپریشن مکمل ہو گیا ۔ صرف 40 منٹس میں سب لوگ مبارکباد دے رہے تھے ۔ کیپٹن اسفند یار بخاری ایک ایگل آئی کیپٹن تھا وہ بہت وسیع النظر کپتان تھا ان کو محسوس ہوا کہ بیرک نمبر 4 (لطیف بیرک)میں کچھ گڑبڑ ہے یہاں ایک چوزہ باقی ہے حوالدار نے کہا سر میں جاتا ہوں تو کہنے لگے تم رہنے دو تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میں خود جاتا ہوںوہ اتنا بہادر سپوت تھا کہ للکارتے ہوئے بیرک میں داخل ہوا جب وہ بیرک میں داخل ہوا تو وہ اندر موجود دہشتگرد گھبرایا ہوا تھالیکن اس نے اتنا ضرور کہاپاک فوج کتنی بہادر ہے جب وطن عزیز کو ضرورت پڑتی ہے تو اس کے جوان جرنیلی بھول جاتے ہیں وہ صرف فوجی بن جاتے ہیں وہ ہمیشہ فرنٹ سے لیڈ کرتے تھے ۔18 ستمبر بروز جمعہ المبارک صبح سویرے پی ایف ائر بیس پر 13 مسلح دہشتگردوں کے حملے کو روکتے ہوئے کیپٹن اسفند یار بخاری نے 29 افراد کے ہمراہ جام شہادت نوش کیا۔یاد رہے اسفند یار نے جب کمانڈ سنبھالی تو اپنی اعلیٰ حکمت سے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ۔ ان کی کمانڈ میں صرف 2 جوان زخمی ہوئے اور یہ آپریشن صرف 2گھنٹوں کے اندر اندر مکمل کر لیا گیا آخری دہشت گرد کو واصل جہنم کرنے کے بعد جام شہا دت نوش فرمایا۔وہ کیا بہادر باپ ہے ایک وقت تھا جب سکول کے زمانے میں ہاکی لگنے سے اسفند زخمی ہوئے تو باپ کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے جب شہادت کی خبر ملی تو کہتا الحمد اللہ۔ جب اُن کا جسد خاکی اُن کے آبائی شہر اٹک لایا گیا تو لواحقین اور اہل علاقہ نے اُن کی عظیم قربانی کی تعریف کرتے ہوئے کہا اسفند یار نے نہ صرف اٹک کا بلکہ پوری قوم کا سر فخر سے بلند کردیا ہمیں اپنے عظیم سپوت پر ناز ہے ۔نماز جنازہ میں اعلیٰ عسکری حکام سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

Tahir Durrani

Tahir Durrani

تحریر : طاہر درانی