واشنگٹن (جیوڈیسک) انٹرٹینمنٹ، سیاست، انٹرٹینمنٹ، ان تینوں الفاظ کی وجہ سے بہت ساری فلموں کو آسانی سے بیان کردیا جاتا ہے۔ ’ڈونکی کنگ‘ بھی ایسی ہی فلموں میں سے ایک ہے یعنی فُل پیسہ وصول، زبردست اور دھانسو قسم کی فلم۔
ایک فلم سے اتنا کچھ ملنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جسے دیکھتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا، فلم کا ”پیس“ (pace) بہت تیز، سین چھوٹے، زیادہ، دلچسپ اور مزیدار ہیں۔
فلم کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا موازنہ بالی وڈ کی ”راج نیتی“ اور ہماری کلاسک کہانی ”انسان اور گدھا“ سے ایک ساتھ کیا جائے گا۔ یہ فلم بچوں کے لیے بھی ہے، بڑوں کے لیے بھی، لیڈر کے لیے بھی، ووٹرز کے لیے بھی، بادشاہ کے لیے بھی اور ان کا غلام بن کر رہنے والی مجبور رعایا کے لیے بھی، یعنی یہ فلم سب کے لیے ہے۔
کسی کو اس فلم میں اپنا آپ نظر آئے گا،کسی کو اپنے نظر آئیں گے اور کسی کو اختیار ملتے ہی پرائے بن جانے اور آنکھیں پھیر لینے والے۔ اور تو اور اس میں ریٹنگ کی دوڑ میں اپنے اُصول بھول جانے والا میڈیا بھی دکھائی دے گا۔
بالی وڈ کے شہنشاہ سے آغاز تھوڑا سا ٹھنڈا لگا کیونکہ اس کے بعد فلم اتنی تیزی سے پِک کرتی ہے کہ اختتام پر ہی آپ فلم کی گرفت سے آزاد ہو پاتے ہیں۔
خواب دیکھنے کی اہمیت ہو، دھوبی گھاٹ کا منگو ہو یا شہزادہ خان کی گاڑی میں انٹری ہو، فلم تیزی اور دلچسپی سے آگے بڑھتی ہے۔ پھر اے سی والے کپڑوں کی”لوجک“ ہو یا ”اُلٹی“کرکے استری کی ہدایات پر عمل، مسکراہٹیں اور قہقہوں کا نہ رکنے والا سفر شروع ہوچکا ہوتا ہے۔
کھوتوں کے کوفتے بھی اپنا ذائقہ دکھا چکے ہوتے ہیں، ابھی منگو کی سادگی اور شہزادہ خان کی سیلفیوں کے بھرم ”اسٹیبلش“ ہوئے ہی ہوتے ہیں کہ مِس فتنہ اور رنگیلا کی بادشاہ کے خلاف سازشیں شروع ہوجاتی ہیں، یعنی منگو اور شہزادے کو ایک ساتھ ‘گدھا’ بنانے کا پلان شروع ہوچکا ہوتا ہے۔
بادشاہ کے مکالمے، ”جنگل میں قانون تو ہوتا ہے“ اور ”عوام تو ہیں ہی غلام ورنہ تاج تو مرغے کے سر پر بھی ہوتا ہے“ فلم کا ٹیمپو سیٹ کرچکے ہوتے ہیں۔
ٹی وی نیوز چینل کا مالک برا بولنے، برا سننے اور برا بیچنے کی پالیسی اور اپنی ریٹنگ کی وجہ سے بادشاہ کے خلاف ہونے والی سازش کا حصہ بن جاتا ہے۔
یہاں بُل فائٹ کا پورا سین، بھینس کے آگے بین بجانے اور ناگن ڈانس سب کو خوب ہنساتا ہے، پھر نئے بادشاہ کے لیے انوکھا مقابلہ شروع ہوتا ہے جس میں بادشاہ بننے کے لیے آنے والے اپنے ٹیلنٹ سے قہقہے لگوا لگوا کر پیٹ میں درد کردیتے ہیں۔
اب ان امیدواروں کو ہرا کر منگو ڈونکی کنگ کیسے بنتا ہے؟ الیکشن میں کیا ہوتا ہے؟بادشاہ اور منگو کے خلاف سازش کرنے والے مِس فتنہ اور رنگیلا کا مقصد کیا ہے؟ کیا منگو ڈونکی کنگ بن کر ان کے جال میں شکار بن جائے گا؟ یا پھر منگو بادشاہ کو سلطنت سونپ کر واپس دھوبی گھاٹ چلا جائے گا؟ ان سب سوالات کے جوابات آپ کو فلم دیکھنے کے بعد ہی معلوم ہوں گے۔
فلم میں کئی ڈراموں اور فلموں کے ”حوالے“ بھی شامل ہیں جن کو بہت خوبی سے استعمال کیا گیا ہے۔ ہر طبقے اور عمر کو یہ فلم دیکھ کر مختلف ریفرنس یاد آئیں گے۔
اِن” ریفرنسز“ کو بہت ہوشیاری، بے ساختگی اور بروقت طریقے سے استعمال کیا گیا ہے، جنھیں دیکھ کر مزا دوبالا ہوگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن کو اوریجنل ریفرنس یاد آئے گا وہ بھی انجوائے کریں گے اور جو نہیں جانتے وہ بھی انجوائے کریں گے۔
فلم میں ہکلا کر مشہور ہونے والا ہیرو بھی ہے اور اس سے نفرت کرنے والا ڈھائی کلو کا ہاتھ بھی۔ ڈراموں کے مشہور خواجہ کا اسٹائل بھی ہے، مشہور امریکی صدر بھی، کڑوا بولنے والا ٹی وی میزبان بھی ہے اور گورنمنٹ کو بِکنے کا طعنہ دینے والی آنٹی بھی۔ بالی وڈ کی ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ کی جھلک ہے تو ڈوب کر ہالی وڈ کی فلم کو ہٹ کروانے والی جیک اور روز کی جوڑی بھی۔ اندھیرا اجالا بھی ہے اور ’انداز اپنا اپنا بھی‘، لیکن ہم تو یہی کہیں گے کہ گیسٹ ہاؤس کا ہیرو ریمبو اس بار سب کے دل میں ”منگو“ بن کر بس گیا ہے۔
فلم کی ”رفتار“ فلم کے ایک کردار کی رفتار سے بالکل ”اُلٹ“ اور بہت تیز ہے اور اس کی ایڈیٹنگ بھی بہت ”شارپ“ہے۔
اینیمیشن کی کوالٹی انتہائی شاندار ہے۔ اس سے پہلے اس فلم کے قریب ترین اینیمیشن صرف ”اللہ یار دی لیجنڈ آف مارخور” میں ہی نظر آئی تھی۔ ساؤنڈ ایفیکٹس اور بیک گراؤنڈ میوزک نے بھی فلم کی رفتار کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔
ڈونکی کنگ دیکھنے کے بعد آپ کا اندازہ بھی یقین میں بدل جائے گا کہ پاکستان کی سب سے بڑی اینیمیشن فلم صرف بچوں کی نہیں بلکہ ہر عمر، ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کے دیکھنے کی فلم ہے۔ اب چاہے وہ اسکول جانے والا چھوٹا بچہ ہو یا پھر اس کے دفتر جانے والے ابو یا اس خاندان کا خیال کرنے والی خاتون خانہ۔
کپڑے دھونے والا دھوبی ہو یا پھر مہنگے کپڑے پہننے والی معاشرتی کلاس، نیوز چینل کی بڑھتی ریٹنگ کے لیے تڑپتا ہوا مالک ہو یا خبروں کو اپنا اینگل دینے والا اینکر۔ ووٹ مانگنے والا سیاستدان ہوں یا پھر الیکشن کے دن سونے والا شہری۔ دوسروں کی مدد کرنے والا سوشل ورکر ہو یا ہمیشہ ”تاخیر“سے پہنچنے والی پولیس اور اس کے شکار عام آدمی۔
اپنے کام میں ناکام افسر ہو یا پھر مِس فِٹ منسٹر۔ اپنے مستقبل کی تلاش میں لیڈر منتخب کرنے والی غلام عوام یا پھر راج ملنے کے بعد رعایا کو بھول جانے والا سلطان۔ بغیر محنت کے کروڑ پتی اور ملکہ حسن کا سرتاج بننے کا خواب دیکھنے والا نوجوان ہو یا رنگ بدل کر ہر دور میں آگے رہنے والے سازشی یا پھر فیس بک، سیلفیوں اور سوشل میڈیا کی بھول بھلیوں میں گم ہوجانے والا ہمارا مستقبل۔ کچھ دیکھنے والے فلم کو آج سے ملائیں گے تو کچھ گزرے زمانے سے موازنہ کریں گے ۔
فلم کے مکالموں اور گانے آپ کو الجھن میں ڈال دیں گے ، گانے زیادہ اچھے ہیں یا ڈائیلاگ، اس کا فیصلہ کرنا کچھ کے لیے مشکل، کچھ کے لیے ناممکن ہوگا۔ گانے ایک ہی بار زبان پر چڑھ جانے والے ہیں اور جو بھی یہ گانے سنتا ہے ان ہی کا ہوجاتا ہے۔
ڈونکی راجہ اور انکی پنکی پونکی سمیت فلم کے گانے چارٹ بسٹرز ہیں۔ فلم کے مکالمے اور نعرے بھی یادگار ہیں جنھیں رنگیلا، مس فتنہ اور جمہورا پہلوان چاچا کی زبانی سننے اور پھر گھر آکر، آفس میں یا دوستوں میں بیٹھ کر دہرانے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔
فلم میں اتنی تفصیل اور محنت سے کام لیا گیا ہے کہ آپ اخبار میں بھی ‘جنگل راج کے دوران موبائل فون سروس کے معطل’ ہونے کی ہیڈ لائن صاف پڑھ سکیں گے۔ ریلی اور جلسے کے دوران پوسٹر اور بینرز بھی پڑھنے کے قابل ہیں اور ٹی وی نیوز کے دوران ایک ایک ٹکر پر بھی کری ایٹو محنت کی گئی ہے۔
منگو کی شرٹ پر بھی (Dream On) مستقل دیکھا جاسکتا ہے جو اس کے خواب دیکھنے کے عزم کا اظہار کرتا ہے۔
فلم کے ہدایات کار، رائٹر اور ان کی پوری ٹیم کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی، جان ریمبو تو پہلے بھی سب کی جان تھے اور اب بھی سب کی جان ہیں۔ انھوں نے اس بار بھی اپنی پرفارمنس سے سب کو دھوبی پٹکا لگادیا ہے۔
حنا دلپذیر نے مِس فتنہ بن کر فتنہ پھیلایا ہے تو رنگیلا یعنی مانی اس فلم کا سرپرائز پیکج ثابت ہوئے۔ عدیل ہاشمی نے شہزادہ خان میں خوب ”میٹھی“ آواز دی تو اسمعیل تارا نے ”ففٹی ففٹی“ پہلوان چاچا بن کر سو فیصد ہنسا ہنسا کر اپنا کردار ادا کیا۔
غلام محی الدین، جاوید شیخ، عرفان کھوسٹ اور شبیر جان تو تینوں لِونگ لیجنڈز ہیں۔ فیصل قریشی نے بھی ’طیفا اِن ٹربل‘ کے بعد ایک بار پھر اپنی پرفارمنس سے سب کو ” بریکنگ نیوز“ دی۔
ڈونکی کنگ پاکستان کی سب سے بڑی اینیمیٹڈ فلم تو ہے ہی، اب یہ پاکستان کی سب سے کامیاب اینیمیٹیڈ فلم بھی بن جائے گی۔ یہ فلم تین بہادر سیریز اور اللہ یار دی لیجنڈ آف مار خور کو ہی نہیں، پاکستان میں ریلیز ہونے والی ہالی وڈ کی تمام اینیمیٹیڈ فلموں کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گی۔
یہی نہیں اس فلم کا بزنس طیفا ان ٹربل کو چھوڑ کر ملک بھر میں ریلیز ہونے والی تمام نان عید فلموں سے بھی زیادہ جانے کا بھی امکان ہے۔
نوٹ:
1۔۔ ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا اور اُس فلم کیلئے کام کرنے والا، فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے۔
2۔۔ ہر فلم سینما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کیلئے بنتی ہے۔فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سینما پر ہی آتا ہے۔ آ پ کے ٹی وی، ایل ای ڈی، موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔
3۔۔ فلم یا ٹریلر کا ریویو اور ایوارڈز کی نامزدگیوں پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔
4۔۔ غلطیاں ہم سے، آپ سے، فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں، آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں۔
5۔۔ فلم کے ہونے والے باکس آفس نمبرز یا بزنس کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے جو کچھ مارجن کے ساتھ کبھی صحیح تو کبھی غلط ہوسکتا ہے۔
6۔۔ فلم کی کامیابی کا کوئی فارمولا نہیں۔ بڑی سے بڑی فلم ناکام اور چھوٹی سے چھوٹی فلم کامیاب ہوسکتی ہے۔ ایک جیسی کہانیوں پر کئی فلمیں ہِٹ اور منفرد کہانیوں پر بننے والی فلم فلاپ بھی ہوسکتی ہیں، کوئی بھی فلم کسی کیلئے کلاسک کسی دوسرے کیلئے بیکار ہوسکتی ہے۔
7۔۔ فلم فلم ہوتی ہے، جمپ ہے تو کٹ بھی ہوگا ورنہ ڈھائی گھنٹے میں ڈھائی ہزار سال، ڈھائی سو سال، ڈھائی سال، ڈھائی مہینے، ڈھائی ہفتے، ڈھائی دن تو دور کی بات دو گھنٹے اور اکتیس منٹ بھی سما نہیں سکتے۔