ممبئی (جیوڈیسک) بھارت کی مشہور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم بارہ سو سے زائد کشمیری طلبہ نے وارننگ دی ہے کہ اگر تین کشمیری طلبہ کے خلاف ’بغاوت‘ کے الزامات واپس نہ لئے گئے تو وہ سترہ اکتوبر کو مجبوراً اپنے گھر لوٹ جائیں گے۔
دہلی کی سینٹرل یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ اور حیدرآباد یونیورسٹی سمیت متعدد یونیورسٹیوں کے طلبہ نے اے ایم یو کے طلبہ کے ساتھ یگانگت کے اظہار کے طور پر احتجاجی مارچ بھی کیا۔ دوسری طرف جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے اے ایم یو میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے اترپردیش کی یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت سے بھی بات کی ہے۔ خیال رہے کہ کشمیر کے کپواڑہ میں گیارہ اکتوبر کو مبینہ دہشت گردی کے خلاف بھارتی سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں اے ایم یو کے سابق پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر منان وانی مارے گئے تھے۔ اے ایم یو میں زیر تعلیم چند کشمیری طلبہ نے یونیورسٹی کیمپس میں ڈاکٹر منان وانی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کی کوشش کی، جس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے نو طلبہ کو وجہ بتاو نوٹس جاری کیا، جب کہ پولیس نے تین کشمیری طلبہ کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس پیش رفت کے بعد سے یونیورسٹی میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ شدید دباؤ میں ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے سابق نائب صدر سجاد سبحان راتھر نے اس صورت حال کے حوالے سے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو خط لکھ کرکشمیری طلبہ پر بغاوت کے الزامات کو انتقامی کارروائی قرار دیا اورکہا کہ کشمیری طلبہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ راتھر نے اپنے خط میں لکھا ہے،’’اگر کشمیری طلبہ کی تذلیل نہیں روکی گئی تو بارہ سو سے زائد کشمیری طلبہ آخری راستےکے طورپر سترہ اکتوبر کو اپنے اپنے گھر لوٹ جائیں گے۔‘‘ سترہ اکتوبر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کا یوم پیدائش ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود اے ایم یو کے ابنائے قدیم ان کے یوم پیدائش کو ’سرسید ڈے‘ کے طور پر بڑے جوش و خروش اور عقیدت سے مناتے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قیام پاکستان کی تحریک میں اے ایم یو کے طلبہ نے کافی اہم رول ادا کیا تھا۔ اس یونیورسٹی نے پاکستان کو متعدد اہم شخصیات دی ہیں۔ ان میں ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان، سابق صدور ایوب خان اور فضل الٰہی چودھری، گورنر جنرل خواجہ نظام الدین، اٹارنی جنرل علی احمد فضیل، میجر جنرل میاں غلام جیلانی، مولانا ظفر علی خان، مشتاق احمد یوسفی، مختار مسعود اور شان الحق حقی وغیرہ شامل ہیں۔
کشمیری طلبہ کے خلاف مقدمہ پر سیاست بھی شروع ہو گئی ہے۔ علی گڑھ کے بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی ممبر پارلیمنٹ ستیش گوتم نے کشمیری طلبہ کو یونیورسٹی سے نکال دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹی انتظامیہ نے معاملے کی انکوائری کے لئے ایک تین رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے جسے تین دنوں کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ یونیورسٹی نے کہا ہے کہ کسی بھی بے قصور طلبہ کو پریشان نہیں کیا جائے گا۔ دریں اثناء سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے فیس بک پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے،’’بھارتی آئین کے تحت پرامن طور پر اور کسی طرح کے ہتھیار کے بغیر نماز جنازہ کے لئے یکجا ہونا شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ البتہ انتظامیہ کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے کہ اس سے امن و قانون کی صورت حال خراب نہ ہو۔‘‘جسٹس کاٹجو نے مزید لکھا ہے، ’’آزادی کا مطالبہ کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ آزادی کے لئے نعرہ لگانا بھارتی آئین میں تقریر کی آزادی کا حصہ ہے۔‘‘
جسٹس کاٹجو نے یونیورسٹی کی انکوائری کمیٹی اور پولیس سے اپیل کی ہے کہ وہ طلبہ کے خلاف کوئی کارروائی نہ کریں ، ’’ہم ایک جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں اور لوگوں کو اپنی ناراضی کا اظہار کرنے کی اجازت ملنی چاہئے ورنہ جیسا کہ سپریم کورٹ کے جسٹس چندر چوڑ نے پچھلے دنوں کہا تھاکہ پریشر کوکر پھٹ سکتا ہے۔‘‘
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق چھبیس سالہ منان وانی اسٹرکچرل اور جیومارفولوجیکل اسٹڈی آف کشمیر کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ انہیں ایک بین الاقوامی سیمینار میں مقالہ پیش کرنے کے لئے انعام بھی ملا تھا۔ کشمیر یونیورسٹی سے ارضیاتی سائنس میں گریجوایشن کے بعد منان وانی نے اے ایم یو میں داخلہ لیا تھا اور ایم فل کی ڈگری کے بعد پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ منان وانی کی ایک تصویر گزشتہ سال جنوری کے اوائل میں سوشل میڈیا پر آئی تھی، جس میں وانی کو ایک راکٹ لانچر لئے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی اعلان تھا کہ وہ حزب المجاہدین میں شامل ہو گئے ہیں۔
منان وانی کے حوالے سے اس تازہ واقعہ کے بعد ایک بار پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ’بدنام‘ کرنے کی کوشش بھی شروع ہو گئی ہے۔ اے ایم یو کو نشانہ بنانے کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اس سے قبل اے ایم یواسٹوڈنٹس یونین کے دفتر میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر کے مسئلہ پر بھی کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ جناح کی یہ تصویر یونیورسٹی میں اس وقت لگائی گئی تھی، جب 1938میں اے ایم یو اسٹوڈنٹس یونین نے انہیں اپنا لائف ممبر بنایا تھا۔