.سابق صدر مملکت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ اپوزیشن کو متحد ہو کر قرارداد لانی چاہیے کہ پاکستان تحریک انصاف حکومت اور ملک چلانے کی اہل نہیں ہے انھوں نے کوئی نشاندہی کیے بغیر کہا ہے کہ حکومت کی نااہلی بہت جلد ظاہر ہوگئی ہے اور وہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے دور میں قائم کیے گئے مقدمات ابھی تک بھگت رہے ہیں اس کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کو حکومت سے چھڑانے کے لیے متحد ہونا پڑے گا تحریک انصاف کو ابھی حکومت سنبھالے دو مہینے ہوئے ہیں کہ آصف زرداری اپوزیشن کو حکومت کیخلاف متحد ہونے کی دعوت دے رہے ہیں آصف زرداری کا حکومت مخالف بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب ایک دن پہلے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ کرپٹ سیاستدانوں کا احتساب ضرور کیا جائے گا کیونکہ کرپشن کرنے والے سیاستدانوں کے تمام ثبوت موجود ہیں وزیراعظم اپنے اس عزم کا اظہار پہلے بھی کئی بار کر چکے ہیں کہ قومی دولت لوٹنے والوں کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے اور نہ ہی اب کوئی این آر او ہوگا وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن والے اپنی جائدادیں بچانے کے لیے متحد ہورہے ہیں لیکن حکومت ان کے دبائو میں نہیں آئے گی کرپشن کے الزامات میں مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف ان دنوں نیب کی حراست میں ہیں اس طرح کے دیگر کیسز کا کئی سیاستدانوں کو بھی سامنا ہے آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کیخلاف بھی منی لانڈرنگ کے کیسز ہیں آصف زرداری ایک سمجھدار آدمی اورتجربے کار سیاستدان ہیں جو وقت کی نزاکت کو بروقت سمجھ لیتے ہیں۔
جناب آصف زرداری بہت زیادہ وسیع سیاسی بیک گرائونڈ نہیں رکھتے ان کے والد حاکم علی زرداری مرحوم ایک وضع دار انسان تھے وہ کراچی کے معروف بمبینو سینما کے مالک تھے جن کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے تھا آصف زرداری کے ایام جوانی میں فلم اور سینما ایک منافع بخش کاروبار تھا کہا جاتا ہے کہ ابتدائی دنوں میں وہ اپنے ہی سینما کے باہر کچھ ٹکٹیں منگے داموں فروخت کرکے اپنا جیب خرچ بنا لیتے تھے قدرت مہربان ہوئی تو ان کی شادی سابق وزیراعظم محترمہ بینظیربھٹو کیساتھ ہوگئی 2007 کے عام الیکشن سے چند ماہ پہلے محترمہ بینظیربھٹو لندن سے اپنی جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آئیں 27 دسمبر کو لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے سے واپسی پر نامعلوم افراد کیطرف سے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی شہید ہوگئیں تو پیپلز پارٹی کی قیادت آصف زرداری کے پاس آگئی کیونکہ اس وقت پیپلزپارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول بھٹو اور ان کی ہمشیرگان چھوٹی تھیں ایسے نازک موقع پر آصف زرداری نے بڑی حکمت اور دانشمندی سے پارٹی کی قیادت سنبھالی اورسیاسی تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ؛ پاکستان کھپے ؛ کا نعرہ لگایا الیکشن میں کامیابی کے بعد صدر مملکت کا عہدہ سنبھالا پیپلز پارٹی پانچ سال اقتدار میں رہی لیکن محترمہ بینظیر کے قاتلوں کو گرفتار نہ کرسکی۔
2013 ء کے عام الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ن برسراقتدار آگئی تو آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار کرتے ہوئے کئی نازک مواقع پروزیراعظم میاں نوازشریف کی حکومت کو پانچ سال پورے کرنے میں بھرپور مدد دی تودوسری طرف آصف زرداری مسلسل کہ رہے ہیں کہ ان کیخلاف کرپشن کے کیس میاں نوازشریف کے دور میں بنائے گئے جس کا ذکر انھوں گزشتہ روز بھی بڑے واضح طور پر کیا اب دیکھنے کی بات یہ ہے جس مسلم لیگ ن کیطرف سے ان پر کرپشن کے کیس بنائے گئے اب آصف زرداری اسی مسلم لیگ ن اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو پی ٹی آئی کی حکومت سے جان چھڑانے کے لیے متحد ہونے کی دعوت دے رہے ہیںاس کا مطلب یہ ہے کہ اندرون خانہ کچھ ہونے جارہا ہے جس کا اندازہ آصف زرداری کو ہوچکا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے عزم کیمطابق کرپشن کیخلاف کاروائیوں میں آگے بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں عنقریب کرپشن کنگز پر بھی ہاتھ ڈالا جارہا ہے کیونکہ یہ ضروری ہے۔
اگر پی ٹی آئی اپنے وعدوں کے مطابق کرپشن کرنے والوں کیخلاف کاروائی نہیں کرتی تو اس نہ صرف اس کی ساکھ خراب ہوگی بلکہ اس کا سیاسی مستقبل مخدوش ہو جائے گا اسی لیے وزیراعظم عمران خان نے نہایت واضح الفاط میں کہا ہے کرپشن کرنے والے سیاستدانوں کو کسی طور نہیں چھوڑا جائے گا کیونکہ ان کے خلاف کرپشن کے تمام ثبوت موجود ہیں۔قوم نے ملک میں تبدیلی اور کرپشن ختم کرکے نیا پاکستان بنانے کے وعدہ پر عمران خان کو منتحب کیا تھا اب حکومت اپنے اس عزم اور ویژن کے مطابق جب کرپشن کرنے والے سیاستدانون اور طاقتور لوگوں کیخلاف کاروائی کرنے جارہی ہے تو اپوزیشن شور مچاتی ہے اب تو آصف زرداری کھلم کھلا اپوزیشن کو حکومت کیخلاف متحد ہونے کی د عوت دے رہے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کرپشن کرنے والوں کیخلاف کاروائی کرنے میں سنجیدہ ہے اور اس پر اپوزیشن اگر شور مچاتی ہے تو دال میں کچھ نہ کچھ کالا ہے ورنہ کرپشن کیخلاف کاروائی پر اپوزیشن کو کیوں تکلیف ہوتی ہے۔
اس طرح وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری کا یہ کہنا بالکل درست نظر آتا ہے کہ قوم کی دولت لوٹنے والوں کو چور کہتے ہیں یا قومی دولت لوٹنے والوں کیخلاف کاروائی کی بات کریں تو اپوزیشن والے اعتراض کرتے ہیں ہم چور کو چور نہ کہیں تو کیا کہیں یہ تمام تر صورتحال پوری دنیا اور پاکستان کے عوام دیکھ رہے ہیں کہ کرپشن کیخلاف کاروائی پر اپوزیشن حکومت کیخلاف متحد ہوتی ہے تو عوام اسے ناپسند کریں گے یہاں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن قومی دولت لوٹنے والوں کیخلاف کاروائی میں روکاوٹ نہ بنے اور نہ ان کا دفاع کرے۔بلکہ اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ قومی دولت لوٹنے والوں کیخلاف کاروائی اور کرپشن ختم کرنے میں حکومت کا ساتھ دے اس میں اس ملک،قوم اور جمہوریت کا مفاد ہے قومی ہوئی دولت واپس قومی خزانے میں آجاتی ہے اور ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہوجاتا ہے تو پاکستان ترقی اور خوشحالی کی منزل کی جانب گامزن ہوگا اگر اپوزیشن لوٹ مار کرنے اور کرپشن کرنے والوں کا دفاع کرنے کے لیے متحد ہوتی ہے تو قوم اس کی مزاحمت کرے گی اس لیے اپوزیشن جماعتوں کو اپنی پوزیشن کلیر کرنی چاہیے کہ وہ قومی دولت لوٹنے والوں کا ساتھ نہیں دیں گی جس کا دامن صاف ہے اسے کرپشن کیخلاف کسی بھی طرح کی کاروائی سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔پاکستان تحریک انصاف کو عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے اسے اپنے اقتدار کی مدت پوری کرنے کا جمہوری حق حاصل ہے عوام حکومت کیخلاف کسی بھی قسم کی غیرجمہوری کوششوں کو ناکام بنائیں گے۔