71 برس قبل 27 اکتوبر 1947ء کو ایک گہری سازش کے تحت بھارت نے کشمیر پر لشکر کشی کرتے ہوئے اس پر اپنا نا جائز تسلط جما لیا تھا۔ جس کے بعد آج تک وہاں فوجی راج قائم ہے اور بھارت جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے کشمیری عوام کو ان کے حق خود ارادیت سے محروم رکھنے کے لئے تمام حربے آزما رہا ہے۔ اسی روز 27 اکتوبر کو بھارتی غاصب افواج کی کشمیر پر قبضے کے خلاف کشمیری پوری وادی میں یوم سیاہ مناتے ہیں، اس برس بھی وادی میں مکمل ہڑتال رہی۔ کٹھ پتلی حکومت نے اس موقع پر حریت کانفرنس کی تمام قیادت کو گھروں میں قید رکھا۔ جبکہ شہروں اور دیہاتوں میں کرفیو کی کیفیت تھی، اس کے باوجود کشمیر یوں نے احتجاجی مظاہرے کئے ۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو 27 اکتوبر 1947ء کو بھارت نے جو حملہ کیا وہ ریاست جموں و کشمیر پر نہیں بلکہ براہ راست پاکستان پر تھا، یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر اہل کشمیر نے اپنا تعلق و ناطہ پاکستان سے نہ جوڑا ہوتا تو بھارت کبھی کشمیر پر حملہ نہ کرتا اس کا مطلب یہ کہ اہل کشمیر کو صرف پاکستان سے محبت کی سزا ملی ہے، سزا و جفا کا سلسلہ 71 سالوں سے جاری ہے اس کے باوجود اہل کشمیر کی پاکستان کے ساتھ محبت میں کمی واقع نہیں ہوئی، اس لئے کہ اس محبت کی بنیاد دینوی اعراض و مفادات پر نہیں بلکہ دین اسلام پر ہے۔ کشمیری بزرگ قائد سید علی گیلانی ، سید بشیر احمد شاہ، میر واعظ عمر فاروق، مسرت عالم بٹ، یٰسین ملک، محترمہ سیدہ آسیہ اندرابی، حریت کانفرنس کے دیگر قائدین و کارکنان کشمیری عوام بھارتی عزائم کی راہ میں چٹان بنے کھڑے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں ،پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں ،سینے پر گولیاں کھا رہے ہیں اور عہد وفا نبھا رہے ہیں۔
تاریخی جغرافیائی قومی اور تقسیم ہند کے طے شدہ اصولوں کے مطابق ریاست کا پاکستان سے الحاق ہونا تھا۔ مگر گہری سازش کے نتیجے میں بھارت نے اپنی افواج کشمیر میں داخل کر دیں یہ سب اچانک نہیں ہوا کشمیریوں کی خواہش کے برعکس کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے پاکستان سے الحاق کے اعلان کو مئوخر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو کشمیری عوام نے اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا تھا، اس دوران انہیں بھارتی بیورو کریٹ وی پی مینن کے راجہ کے گھر میں موجودگی اور کشمیر کے بھارت سے الحاق کے لئے بھارت اور راجہ کے مابین ہونے والی سودے بازی کی اطلاع ملی تو اس کے خلاف احتجاج کے لئے ہزاروں کشمیری راجہ کے محل کے باہر اکٹھے ہو گئے، ہری سنگھ کی ظالم ڈوگرہ فوج نے کشمیریوں پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کشمیری رخمی ہو گئے، صورت حال کو بے قابو ہوتا دیکھ کر وی پیمینن نے مہاراجہ ہری سنگھ کو فوری طور پر جموں منتقل کرنے کا حکم دیا۔ اس حکم کے نتیجے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مہاراجہ عملاً بھارت کا قیدی بن چکا ہے اور ڈوگرہ فوج بھارت کی وفاداری کر رہی ہے۔وی پی مینن کے حکم پر مہاراجہ ہری سنگھ کی جموں منتقلی نے کشمیریوں کے اشتعال میں مزید اضافہ کر دیا، کیونکہ وہ بھانپ چکے تھے کہ بھارت کشمیر پر تسلط جمانے کی کوشش کر رہا ہے، جس کے خلاف احتجاج نے پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔مہاراجہ نے 26اکتوبر 1947ء کو لارڈ مائونٹ بیٹن کو ایک خط لکھا جس میں مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کا اعلان کرتے ہوئے بھارت کے سر براہ کے طور پر مائونٹ بیٹن سے مدد کی درخواست کی تھی۔ مذکورہ خط وی پی مینن نے لارڈ مائونٹ بیٹن تک پہنچایا تھا۔ مہاراجہ کے خط کو لارڈ مائونٹ بیٹن نے جس انداز سے شرف قبولیت بخشا اس کا جواب نہیں جسے پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے الحاق کے اعلان میں تاخیر اور اس سے بھی قبل بائونڈری کمیشن کی طرف سے مغربی پنجاب میں مسلمان اکثریتی آبادیوں والی چند اہم تحصیلوں کو پاکستان سے کاٹ کر بھارت میں شامل کرنے کے اعلان کو مائونٹ بیٹن کی مکمل تائید و حمایت حاصل تھی ورنہ بھارت کا کشمیر سے زمینی راستہ منقطع ہو جاتا۔
ریاست کو ہاتھوں سے نکلتا دیکھ کر مہاراجہ نے جو ظالمانہ اقدامات کئے اس کی مثال نہیں ملتی مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا جبکہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اسلحہ سرکار کو جمع کروا دیں چاہے وہ لائسنس یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔ بعد ازاں مہاراجہ کی ایماء پر آر ایس ایس نے ہندو راج سبھا و دیگر ہندو فرقہ پرست تنظیموں کے پچاس ہزار کارکن کشمیر میں پہچائے گئے جنہوں نے جموں کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا کر پوری ریاست میں خفیہ شاخیں قائم کر لیں مہاراجہ کی فوج کے افسروں نے ان بلوائیوں کو ہتھیار بنانے، چلانے، مسلمانوں کے قتل خواتین کی آبرو ریزی کی تربیت دی۔ ان ہندو بلوائیوں نے ہزاروں مسلمانوں کوشہید کیا ،آبادیاں ویران کر دیں ،مسجدیں جلا دیں، گھر لوٹ لئے، درجنوں دیہات ایسے تھے جہاں کے تمام مردو زن اور بچوں کو گولیوں سے اڑا دیا گیا تھا، ایک صرف ریاست کے اندر مسلمانوں کی نسل کشی اور دوسری جانب بھارتی فوج نے ریاست پر چڑھائی کرتے ہوئے کشمیر پر اپنے پنجے گاڑ ھ لئے۔ 71سالوں سے بھارتی قابض افواج نے کشمیریوں کا محاصرہ کر رکھا ہے مقبوضہ کشمیر دنیا کا سب سے بڑا ایسا خطہ ہے جس میں دس لاکھ بھارتی فوج تعینات ہے اور نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔جو قرار داد بھارت سلامتی کونسل میںیکم جنوری1948ء کو لے کر گیا تھا اس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا جو کہ اقوام عالم کی بے حسی اور ہندوستان کی عکاسی کو ظاہر کرتا ہے۔قرار داد خود ہی پیش کی اور آج تک اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہے، اس قرار داد کے اہم نقاط یہ تھے۔
1۔ فوری طور پر جنگ بندی ہو 2۔ریاست جموں و کشمیر سے دونوں ممالک کی افواج اور دیگر متحارب عناصر نکل جائیں۔ 3۔ ریاست میں ایک مخلوط حکومت قائم ہو جس میں مختلف جماعتوں کو نمائندگی دی جائے۔ 4۔صورتحال معمول پر آ جائے تو ریاست میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کی جانے سے اگست1949ء تک بھارت نے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی اپنے نمائندے مشترکہ کمیٹی کیلئے پیش کئے۔ اقوام متحدہ نے آسٹریلیا کے ایک جج سراوون ڈکسن کو جولائی 1950ء میں اپنا نامزد نمائندہ بھیجا۔ اسکے مطابق طے کیا گیا کہ پاکستان کی افواج کشمیر سے نکل جائیں اور کچھ روز بھارتی افواج بھی چلی جائیں، بھارتی مقبوضہ کشمیر کی افواج اور ملیشا کو توڑ دیا جائے، رائے شماری کیلئے پورے کشمیر میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹوں کے تحت ایک تنظیم عمل میں لائی جائے اور ہر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ساتھ اقوام متحدہ کا ایک مبصر ہو تا کہ رائے شماری میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہو۔افسوس اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا اورآج تک کشمیریوں کو حق رائے شماری نہیں مل سکا۔ اقوام متحدہ کے نامزد نمائندے سراوون ڈکسن نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ” بھارت کی افواج زیادہ آبادی والے حصے میں موجود ہیں ایسے میں اگر ریاستی ملیشا اور ریاستی پولیس کو اپنا اثر قائم کرنے کا موقع دیا گیا تو کشمیری عوام اپنی رائے کا آزادانہ اظہار نہیں کر سکیں گے۔
ڈ کسن کی ناکامی کے بعد ڈاکٹر گراہم اقوام متحدہ کے نمائندے بن کر کشمیر آئیں۔ سلامتی کونسل نے 30مارچ 1951ء کو ایک اور قرار داد منظور کی اور بتایا کہ وادی سے تمام بھارتی فوج نکل جائے۔ ڈاکٹر گراہم نے تین ماہ تک دونوں ممالک نمائندوں اور کشمیریوں کے مختلف گروپوں سے ملاقات کی، تا ہم ڈاکٹر گراہم نے اپنی رپورٹ میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت فوج واپس بلانے پر آمادہ نہیں۔ڈاکٹر گراہم نے مزید لکھا کہ پاکستان نے مکمل تعاون فراہم کیا لیکن بھارت کا رویہ منفی رہا۔ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ تسلط کا مقصد پاکستان کے لئے مشکل ترین حالات پیدا کرنا ہیں جیسا کہ پاکستان کو صحرا میں بدلنے کے لئے کشمیر سے بہنے والے دریائوں بالخصوص دریائے سندھ اور دریائے نیلم ،جہلم، کے پانی پر نا جائز قبضہ کرنا ہے، جبکہ دفاعی لحاظ سے بھی کشمیر پاکستان کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور یوں کشمیر پر قبضے کی سازش در اصل پاکستان کے وجود اور سالمیت کیخلاف بھارت کے جارحانہ عزائم کی علامت بھی ہے، ساری دنیا بخوبی جانتی ہے کہ کشمیر پاکستان کا لازمی جزو ہے اور اس کے بغیر پاکستان ابھی تک نا مکمل ہے۔
بھارتی لشکر کشی کے حوالے سے حریت لیڈر سید علی گیلانی نے کہا کہ 27اکتوبر 1947ء وہ منحوس دن ہے جب کشمیری عوام کی آزادی کو زبردستی ان سے چھین لیا گیا اور بھارت نے ان کی مرضی اور منشاء کے خلاف یہاں اپنی فوج کو اتارا انہوں نے کہا کہ جب سے یہ فوج کشمیری آواز کو دبانے کے لئے ان پر بے پناہ مظالم ڈھا رہی ہے، آج تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے، ہزاروں بے گناہ کشمیری ماورائے عدالت حراست میں قتل اور دس ہزار سے زیادہ کو لا پتہ کر دیا گیا ہے، ہزار وں بے نام قبریں بھارتی بربریت اور درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ساڑھے سات ہزار خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ سید علی گیلانی کے مطابق ریاست میں افسپا، ڈسٹربڈ ائریا ایکٹ اورپی ایس اے جیسے کالے قوانین نافذ ہیں اور ان کی وجہ سے پولیس اور فوج کو ستم ڈھانے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ مودی سرکار نہتے کشمیریوں کی نسل کشی کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ڈھونگ الیکشن کے نام پر بھارت نے کشمیر میں اپنی فوج میں مزید اضافہ کیا اور اب روزانہ نام نہاد سرچ آپریشن کے بہانے کشمیریوں کا خون بہایاجارہاہے۔
گزشتہ چند دنوں میں ڈاکٹر عبدالمنان وانی اور معراج الدین بنگرو سمیت درجنوں کشمیریو ں کو شہید کیا گیا ہے۔ اسی طرح کولگام میں نام نہاد سرچ آپریشن کے بہانے دس کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا جس کے بعد سے پوری کشمیری قوم سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے اور سری نگر سمیت پورے کشمیر میں احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں کی جارہی ہیں تاہم بین الاقوامی اداروں اور ملکوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف بھرپور آواز بلند کرے اور بین الاقوامی سطح پر بھارتی ریاستی دہشت گردی کو بے نقاب کیا جائے۔ کشمیر میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارتی فوج کشمیریوں کے گھروں میں گھس کر نوجوانوں پر گولیاں برسارہی اور ان کی املاک برباد کی جارہی ہیں۔آئے دن کرفیو جیسی پابندیاں عائد کر کے مساجد سیل کر دی جاتی ہیں اور کشمیریوں کو نماز جمعہ تک کی ادائیگی کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ شہداء کے جنازوں کی ادائیگی پر بھی پابندیاں لگائی جارہی ہیں اور نماز جنازہ پڑھنے والے کشمیریوں پر بغاوت کے مقدمات درج کئے جارہے ہیں۔بزرگ کشمیری قائد سید علی گیلانی سمیت پوری کشمیری قیادت کو نظربند کر دیا گیا ہے اور تحریک آزادی میں حصہ لینے والے سرگرم کشمیری نوجوانوں کو کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔ بھارت کشمیر میں جس قدر زیادہ قتل و غارت گری کر رہا ہے اسی قدر نوجوانوں میں جذبہ حریت بیدار ہو رہا ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تحریک آزادی میں شامل ہو رہے ہیں۔مظلوم کشمیریوں کی لازوال قربانیوں نے آزادی کشمیر کی منزل کو قریب کر دیا ہے پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے ساتھ ہے۔ کشمیریوں کا لہو بہہ رہا ہو اور پاکستانی قوم خاموش رہے ایسا ممکن نہیں ہے۔ کشمیریوں کی نسل کشی پر انسانی حقوق کے عالمی اداروں اورملکوں کی خاموشی افسوسناک ہے۔ پاکستانی قوم تحریک آزادی میں کشمیریوں کے ساتھ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔کشمیری قوم جس طرح لازوال قربانیاں پیش کر رہی ہے وہ وقت قریب ہے کہ جب جنت ارضی کشمیر پر سے غاصب بھارت کا قبضہ ختم ہو گا اور مظلوم کشمیری مسلمان ان شاء اللہ آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے۔