اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں گذشتہ ایک روز سے اسرائیلی طیارے کے پاکستان آنے یا نہ آنے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر شور مچا ہوا ہے، حکومت کے مخالف اور حمایتی ایک دوسرے پر الزام عائد کر رہے ہیں۔
اسرائیلی جہاز پاکستان میں آیا یا نہیں، اس معاملے کا آغاز اس وقت ہوا جب اسرائیلی اخبار ‘ہاریٹز’ کے مدیر، ایوی شراف نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر فلائٹ ریڈار نامی سائیٹ کے سکرین شاٹس لگائے اور دعویٰ کیا کہ اسرائیل کے شہر تل ابیب سے آنے والا ایک جیٹ جہاز اسلام آباد اترا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ جہاز 10 گھنٹے تک اسلام آباد میں رہا اور پھر دوبارہ ریڈار پر نظر آیا۔
اس حوالے سے پاکستان سول ایوی ایشن کے ترجمان کا کہنا ہے اسرائیلی طیارہ پاکستان کے کسی ایئرپورٹ پر نہیں اترا۔ سول ایوی ایشن کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کیے جانے والے ٹوئٹ میں ادارے کا کہنا ہے کہ اسرائیلی طیارے کی آمد صرف افواہ پر مبنی ہے۔ اسرائیل کا کوئی بھی طیارہ پاکستان کے کسی ایئرپورٹ پر نہیں اترا۔
اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے حکومت سے معاملے کی وضاحت طلب کی تو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے جوابی ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ ”حقیقی صورتحال یہ ہے کہ عمران خان نواز شریف ہے نہ اس کی کابینہ میں آپ جیسے جعلی ارسطو ہیں”۔
فواد چودھری نے کہا کہ ”ہم نہ مودی جی سے خفیہ مذاکرات کریں گے نہ اسرائیل سے۔ آپ کو پاکستان کی اتنی فکر ہوتی جتنی ظاہر کر رہے ہیں تو آج ہم ان حالات میں نہ ہوتے۔ اس لئے جعلی فکر نہ کریں۔ پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے”۔
اسرائیلی صحافی نے اپنی ٹوئٹس میں ایک تصویر بھی شائع کی جس میں سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری سال 2005 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر خارجہ سلوان شلوم کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے کھڑے ہیں۔ اس حوالے سے تجزیہ کار پرویز ہودبھائی نے کہا کہ اس وقت اسرائیل کے تعلقات کی کوئی وجہ سامنے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ”اس موقع پر اسرائیل پاکستان کے تعلقات کیوں بڑھانا چاہے گا خاص طور پر اس وقت اسرائیل کا اتحادی ملک سعودی عرب جمال خشوگی کی وجہ سے مشکل میں ہے۔ اس وقت ممکن نہیں کہ اسرائیل ایسی سفارتی کوشش کرے”۔
پرویز ہودبھائی نے کہا کہ ”جہاں تک میں سمجھا ہوں یہ صرف ایک صحافی کی ٹوئیٹ تھی جس کی پاکستان نے سختی سے تردید کردی ہے۔ اب ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ ایسا کوئی طیارہ پاکستان آیا تھا اور نہ ہی اس کی کوئی منطق ہے۔ یہ افواہ اڑائی گئی اور اس کا بتنگڑ بنایا گیا۔”
اس جہاز کے حوالے سے اگرچہ حکومت نے تردید تو کر دی۔ لیکن، ایوی شراف کا کہنا ہے کہ یہ جہاز اسرائیلی نہ تھا اور نہ ہی براہ راست اسرائیل سے آیا؛ بلکہ پائلٹ نے کمال مہارت سے پہلے مسقط اور پھر اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈ کیا۔ روٹ تبدیل کرنے سے پروازوں کے مخصوص کوڈ بھی بدل جاتے ہیں جن سے یہ مختلف ایئر ٹریفک کے ٹاورز سے رابطہ کر کے شناخت کرواتے ہیں۔جس طیارے کے بارے میں بات کی جا رہی ہے، وہ طیارہ کینیڈا کی طیارہ ساز کمپنی بمبارڈیئر گلوبل ایکسپریس کا ہے، جس کا سیریل نمبر 9394 ہے اور یہ 22 فروری 2017 سے خود مختار برطانوی ریاست ۔ایزل آف مین میں رجسٹرڈ ہے۔”
پرویز ہودبھائی کہتے ہیں کہ ”اسرائیل کے ساتھ پاکستان کو بات کرنی چاہیے۔ لیکن مسئلہ فلسطین پہلے ہے۔”
انہوں نے کہا کہ ”اسرائیل کے ساتھ پاکستان کی بات ہوسکتی ہے اور ہونی چاہیے، پاکستان اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات ہونے چاہئیں۔ لیکن، اس کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیل فلسطین کے حوالے سے اپنے وعدے پورے کرے۔ جب اسرائیل اپنا رویہ بدلے گا اور منصفانہ حل پیش کرے گا، تب ہمیں اسرائیل سے بات بھی کرنی چاہیے اور سفارتی تعلقات بھی ہونے چاہئیں”۔
حکومتی تردید اپنی جگہ اور حکومت مخالف افراد کے شکوک اپنی جگہ، اس معاملے میں عوامی سطح پر جس طرح کا ردعمل دیا گیا اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات ایک حساس معاملہ ہے اور دونوں ممالک جن کے درمیان کوئی سفارتی تعلق نہیں، آئندہ کئی برسوں تک شاید ایک دوسرے سے براہ راست بات بھی نہ کرسکیں۔