اسلام آباد (جیوڈیسک) اپوزیشن رہنماؤں نے آسیہ بی بی کیس کے فیصلے کے بعد تنقید اور مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان کے قوم سے خطاب کو ‘پر تشدد’ اور ‘جارحانہ’ قرار دیتے ہوئے ایوان میں آکر پالیسی بیان دینے کا مطالبہ کردیا۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو ناکافی شواہد کی بناء پر بری کردیا تھا، جس کے بعد مذہبی جماعتوں کی جانب سے احتجاج شروع ہوا، جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے بعد گزشتہ روز قوم سے اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے مطابق ہے۔
انہوں نے ملک دشمن عناصر کو وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘اپنی سیاست اور ووٹ بینک کے لیے اس ملک کو نقصان نہ پہنچائیں اور ریاست سے مت ٹکرائیں، ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے گی اور لوگوں کی جان و مال کی وحفاظت کرے گی لہٰذا ریاست کو مجبور نہ کریں کہ وہ ایکشن لے’۔
آج قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ ‘کل وزیراعظم کی تقریر میں تشدد نظر آیا،اس سے امن قائم نہیں ہوگا’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘کونسا مسلمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی برداشت کرےگا، اس نام پر مسلمان کٹ مرنے کو تیار ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم حکومت کو ٹارگٹ نہیں بنانا چاہتے، لڑائی نہیں کرنا چاہتے، ہم چاہتے ہیں کہ جو ہو رہا ہے، اس پر بیٹھ کر بات کرنی چاہیے اور ملکی حالات پر حکومت کو تحمل کے ساتھ باتیں سننی چاہیے’۔
پیپلز پارٹی رہنما نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایک وقت تھا جب چینی صدر شی جن پنگ پاکستان آرہے تھے اور آپ کنٹنیر پر چڑھے تھے، آج آپ چین جا رہے ہیں، آپ کو پارلیمنٹ آنا چاہیے تھا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘حکومت کو چاہیے کہ کھل کر بولے، لیکن وزیراعظم ایوان میں آئیں، انہیں اس ایوان سے بھاگنا نہیں چاہیے’۔
خورشید شاہ نے کہا کہ ‘یہی بات کل جب میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو کہتا تھا تو پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری اور شفقت محمود ڈیسک بجاتے تھے، میرے موقف میں تبدیلی نہیں ہے، آپ کے موقف میں آ گئی ہے’۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بھی وزیراعظم عمران خان کے قوم سے خطاب پر تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انہیں اسمبلی میں آکر پالیسی بیان دینا چاہیے۔
خواجہ سعد رفیق نے عمران خان کے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘حکمران کا رویہ جارحانہ نہیں ہونا چاہیے، وزیراعظم کو ایوان میں آکر اس صورت حال پر اعتماد میں لینا چاہیے تھا’۔
لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ‘موجودہ صورتحال میں کوئی سیاسی فائدہ اٹھانا نہیں چاہتا، لیکن جس کارڈ کو ماضی میں استعمال کیا گیا، وہی اب آپ کے خلاف استعمال ہو رہا ہے’۔
سعد رفیق نے کہا کہ ‘آج پاکستان میں بحرانی کیفیت ہے، کچھ عناصر مذہب کا نام استعمال کرتے ہوئے پھر سڑکوں پر ہیں، لیکن ان کے بیانیے سےکوئی باشعور شہری اتفاق نہیں کرتا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ گزشتہ سے پیوستہ ہے، جس مذہبی کارڈ کو کل گزشتہ حکومت کے خلاف استعمال کیا گیا، وہ آج آپ کے خلاف ہو رہا ہے’۔
سعد رفیق نے عمران خان کو مخاطب کرکے کہا، ‘کچھ عرصہ پہلے آپ لاک ڈاؤن کررہے تھے، آپ کو اس رویے پر ندامت ہونی چاہیے کہ آئندہ ایسا غیر دانش مندانہ رویہ استعمال نہیں کریں گے’۔
لیگی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ ‘جو کچھ قومی اداروں کے خلاف کہا گیا، وہ ناقابل قبول ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید ہوتی ہے لیکن دھمکیوں کا کوئی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دے سکتا’۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ‘طاقت کے استعمال سے گریز کیا جانا چاہیے، وزیراعظم اس بات پر پالیسی بیان دیں اور افہام و تفہیم کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالیں’۔