اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں توہین مذہب کے مقدمے میں کئی برسوں سے جیل میں بند اور حال ہی میں ملکی سپریم کورٹ کی طرف سے بری کر دی جانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے شوہر عاشق مسیح نے امریکی صدر ٹرمپ سے مدد اور پناہ کی اپیل کر دی ہے۔
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے اتوار چار نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق آسیہ بی بی، جنہیں سن 2010 میں سنائی جانے والی سزائے موت بدھ اکتیس اکتوبر کے روز پاکستانی سپریم کورٹ نے منسوخ کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا، ابھی تک جیل میں ہیں اور اپنی رہائی سے متعلق سرکاری دستاویزی کارروائی مکمل ہونے کے انتظار میں ہیں۔
آسیہ بی بی کے شوہر عاشق مسیح نے کل ہفتہ تین نومبر کے روز ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں اپنی، اپنے اہل خانہ اور خاص طور پر جیل میں بند اپنی اہلیہ کی سلامتی کے بارے میں گہری تشویش لاحق ہے۔ انہوں نے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ آسیہ بی بی پر جیل میں بھی حملہ کیا جا سکتا ہے۔
اب اسی سلسلے میں روئٹرز نے لکھا ہے کہ عاشق مسیح نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کی ہے کہ وہ آسیہ بی بی اور ان کے اہلِ خانہ کی پاکستان سے رخصتی میں مدد کریں اور اس اقلیتی جوڑے اور اس کے خاندان کو امریکا میں پناہ دی جائے۔
روئٹرز نے لکھا ہے کہ عاشق مسیح نے امریکی صدر کے علاوہ برطانیہ او کینیڈا کے وزرائےا عظم سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ بھی ان کی اور ان کے خاندان کی مدد کریں۔ برطانیہ میں پاکستانی مسیحیوں کی تنظیم برٹش پاکستانی کرسچین ایسوسی ایشن کی طرف سے ریکارڈ کیے گئے عاشق مسیح کے ایک ویڈیو پیغام میں، جسے روئٹرز کے نامہ نگار نے خود بھی دیکھا، آسیہ بی بی کے شوہر نے کہا ہے، ’’میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ پاکستان سے رخصتی میں ہماری مدد کریں۔‘‘
اس ویڈیو میں عاشق مسیح نے مزید کہا ہے، ’’میں برطانیہ کی وزیر اعظم اور کینیڈا کے وزیر اعظم سے بھی یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھی ہماری مدد کریں۔‘‘ اس ویڈیو پیغام میں عاشق مسیح نے اپنے بھائی جوزف ندیم کے لیے بھی پاکستان سے رخصتی اور بیرون ملک پناہ کے حصول میں مدد کی اپیل کی ہے۔ جوزف ندیم نے بھی آسیہ بی بی کی گرفتاری کے بعد اپنی بھابھی کا مقدمہ لڑنے میں عملی طورپر اپنے بھائی عاشق مسیح کی بھرپور مدد کی تھی اور عاشق مسیح کے مطابق جوزف ندیم کی زندگی بھی خطرے میں ہے۔
روئٹرز کے مطابق اس ویڈیو اور اس میں دیے گئے پیغام کے بارے میں جب اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے اور برطانیہ اور کینیڈا کے ہائی کمشنوں سے رابطہ کیا گیا، تو ان کی طرف سے کوئی بھی رد عمل ظاہر کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
کل ہفتے کے روز آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک بھی یہ کہتے ہوئے پاکستان سے بیرون ملک چلے گئے تھے کہ انہیں جان سے مار دیے جانے کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ سیف الملوک کے مطابق انہیں اپنی اور اپنے اہل خانہ کی سلامتی سے متعلق گہری تشویش لاحق تھی اور وہ کسی مشتعل ہجوم کا نشانہ بننے سے قبل اپنی جان بچانے کے لیے بیرون ملک جا رہے تھے۔
آسیہ بی بی کے لیے سزائے موت کے گزشتہ عدالتی حکم کی منسوخی اور ان کی رہائی کے ملکی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد پاکستان میں اسلام پسند حلقوں کی طرف سے پر تشدد مظاہرے شروع کر دیے گئے تھے، جن میں کئی شہروں اور قصبوں میں بہت سی نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔
ان مظاہرین میں انتہائی دائیں بازو کی مسلم مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے کارکن نمایاں تھے۔ ان مظاہرین کے مطابق آسیہ بی بی کی رہائی کا عدالتی فیصلہ ’غلط‘ ہے اور اس خاتون کو ’سزا دی جانا چاہیے‘۔ یہ پرتشدد مظاہرے حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کی قیادت کے مابین ایک سمجھوتے کے بعد ختم ہوئے تھے۔