چھُری خربوزے پہ گرے یا خربوزہ چھری پہ، نقصان بیچارے خربوزے کا۔ اقتدار کی جنگ جیتنے والا مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہوتا ہے تو ہارنے والا روزِاوّل سے ہی ”کرسی” چھیننے کی تگ ودَو میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اِس تصادم میں پستے ہیں تو صرف عوام۔ 2014ء کے اسلام آباد ڈی چوک کے 126 روزہ دھرنے میںعمران خاںصاحب مسندِ اقتدار کے حصول کی خاطر ساری حدیں پھلانگ گئے۔ اُن کے حکم پردھرنے کے شرکاء نے پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ توڑے، وزیرِاعظم ہاؤس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، پی ٹی وی پر قبضہ کیا، تھانے پر حملہ کرکے اپنے ساتھیوں کو چھڑوایااور یہی نہیں بلکہ عمران خاں نے سول نافرمانی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ یوٹیلٹی بلز دینے سے انکار کر دیں اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اپنی رقوم ہُنڈی کے ذریعے بھیجیں۔ کپتان کے اِن اقدامات کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ 52ہزار پوائنٹس سے گر کر 38 ہزار پوائنٹس تک آن پہنچی، معیشت کا پہیہ رُک گیااور ملک افراتفری کا شکار ہوا۔ تب نقصان نوازلیگ کا ہوا نہ تحریکِ انصاف کا، نقصان ہوا تو صرف مجبورومقہور عوام کا کہ ”نزلہ بَر عضوِضعیف می ریزد”۔ آج وہی ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کی کوشش کرنے والے عمران خاں ملک کے وزیرِاعظم ہیںاور جن آلام ومصائب میں نوازلیگ کو گرفتار کرنے کے لیے وہ ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے، آج اُنہیں بھی اُنہی مسائل کا سامنا ہے حالانکہ اپوزیشن خاموش تماشائی۔ شاید اِسی کا نام مکافاتِ عمل ہے لیکن تاریخ کا سبق تو کسی کو بھی یاد نہیں رہتا۔
سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعددھرنوں سے جان چھٹی تو کچھ ہی عرصے بعد تحریکِ لبّیک نے فیضِ آباد چوک پر دھرنا دے کر جڑواں شہروں (راولپنڈی، اسلام آباد) کو مفلوج کر دیا۔ تحریکِ لبّیک کے سربراہ مولانا خادم حسین رضوی نے دھرنوں کے ایام میں جو کچھ کہا، اُسے ضابطۂ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ تب کپتان دھرنا دینے والوں کے ساتھ تھے اور اُن کے حق میں بیانات داغ رہے تھے۔ یہی نہیں بلکہ شنید ہے کہ اُن کے ”راشن پانی” کا بھی انتظام کر رہے تھے۔ اِس دھرنے نے پھیلتے پھیلتے پورے پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیااور عوام عملی طور پر اپنے گھروں میں محبوس ہو کر رہ گئے۔ پھرنوازحکومت کی ایک انتہائی شرمناک معاہدے کے بعد اِس دھرنے سے جان چھوٹی اور عوام نے سُکھ کا سانس لیا۔ اگر اُس وقت تحریکِ انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں قومی مفاد کی خاطر نوازلیگ کی پشت پر کھڑی ہو جاتیں تو نہ صرف یہ کہ اِس شرمناک معاہدے کی نوبت نہ آتی بلکہ شَر پھیلانے والوں کو بھی سبق مل جاتا لیکن ہمارے ہاں تو یہی رواج ہے کہ بہرصورت حکمران جماعت کی مخالفت ہی کرنی ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اِس سے قومی مفاد کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ آجکل تحریکِ انصاف اِسی مکافاتِ عمل کا شکار ہے۔ وہی خادم حسین رضوی، وہی تحریکِ لبّیک اور وہی افراتفری۔
2009ء میں ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی توہینِ رسالتۖ کے جرم میں گرفتار ہوئی۔ اُس پر باقاعدہ کیس چلا اور کورٹ نے اُسے سزائے موت کا حکم سنایا۔ ہائیکورٹ نے بھی اُس کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزائے موت کا حکم برقرار رکھا لیکن لگ بھگ 7 سال بعد سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے عدم ثبوت کی بنا پر آسیہ بی بی کی رہائی کا حکم دیا جس نے ایک دفعہ پھر فیض آباد دھرنے کی یاد تازہ کر دی۔ وہی تحریکِ لبّیک، وہی علامہ خادم رضوی اور وہی پورا ملک مفلوج لیکن اِس فرق کے ساتھ کہ تب نوازلیگ کی حکومت تھی اور اب تحریکِ انصاف کی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہرعالم پر مشتمل تین رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے، ایف آئی آر وقوعہ کے پانچ دن بعد درج ہوئی، پینتیس افراد موجود تھے مگر گواہی صرف دو بہنوں نے دی، تفتیشی نے صفائی کے لیے آسیہ کو بائبل پر قسم اُٹھانے کی اجازت نہیں دی۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے تحریر کیا جو 32 صفحات پر مشتمل ہے جس میں قُرآن وحدیث کے حوالے بھی دیئے گئے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 24 صفحات پر مشتمل علیحدہ نوٹ لکھا جو اِس فیصلے کی مزید وضاحت کرتا ہے۔ انتہائی محترم تین رکنی بنچ کا فیصلہ بجا ، سوال مگر یہ ہے کہ لوئر کورٹ نے کن ثبوتوں کی بنا پر آسیہ بی بی کو سزائے موت دی اور ہائیکورٹ نے کیوں لوئر کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا؟۔ ناموسِ رسالتۖ کا تحفظ ہر مسلمان کا فرض ہے اور توہینِ رسالتۖ کا ارتکاب کرنے والے کو معاف کر دینے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اِس لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے انتہائی محترم جسٹس صاحبان نے پوری تحقیق وتدقیق کے بعد ہی یہ فیصلہ لکھا ہو گالیکن ہائیکورٹ اور لوئرکورٹ میں بھی تو منصفین ہی بیٹھے ہیں۔ آسیہ بی بی کے کیس میں اُن سے کہاں اور کیوں غلطی ہوئی؟۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ یہی تین رکنی بنچ اُن جج صاحبان کو کٹہرے میں کھڑا کرکے اُن سے وہ ثبوت طلب کریں جن کی بنا پر آسیہ مسیح کو سزا دی گئی۔
بدھ کی رات قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم عمران خاں نے کہا کہ ایک حلقے کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ردِعمل میں جو زبان استعمال کی گئی، اُس کے باعث وہ خطاب پر مجبور ہوئے۔ اُنہوں نے کہا کہ ریاست عوام کی جان ومال کی حفاظت کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی۔ اُنہوں نے کہا ”پاک فوج بڑی قربانیوں کے بعد ملک کو دہشت گردی کی دلدل سے نکالنے میں کامیاب ہوئی ہے، لوگوں کو اُکسانے کی کوششوں سے فائدہ پاکستان کے دشمنوں کو ہوگا۔ عوام سے اپیل ہے کہ وہ ایسے عناصر کی باتوں میں نہ آئیں جو ووٹ بینک کی خاطر لوگوں کو اکساتے ہیں”۔ وزیرِاعظم صاحب کا حرف حرف درست، سوال مگر یہ کہ اُنہیں یہ سب کچھ آج کیوں یاد آرہا ہے، اُس وقت کیوں یاد نہیں آیا جب وہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر سول نافرمانی کا اعلان کر رہے تھے، جب اِسی علامہ خادم حسین رضوی کے حق میں بیان داغ رہے تھے؟۔
آج نوازلیگ اور پیپلزپارٹی نے تو اُن کی حمایت کا اعلان کر دیا لیکن کیا اُنہیں یاد ہے کہ وہ کبھی نوازلیگ کی حمایت میں کھڑے ہوئے ہوں۔ اُن کے وزیربا تدبیر فوادچودھری تو دھمکیوں پر اُتر آئے تھے۔ پرویزمشرف کی گود کے پالے فوادچودھری کو تو اپنے آقا کے کہے گئے جملے بھی اَزبر ہیں۔ پرویزمشرف نے نواب اکبر بگتی کو کہا تھا ”ہم تمہیں وہاں سے ہِٹ کریں گے کہ پتہ بھی نہیں چلے گا”۔ فوادچودھری نے یہی جملہ تحریکِ لبّیک کے لیے دہرایا لیکن پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ تحریکِ لبّیک کے ساتھ تحریکِ انصاف کو معاہدہ کرنا پڑا اور وہ بھی تحریکِ لبّیک کی شرائط پر۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اِس معاہدے پر دستخط اُسی پیر افضل قادری کے ہیں جس نے اپنی تقریر میں ججوں اور ریاستی اداروں کے سربراہوں کے خلاف انتہائی نازیبا الفاظ کہے۔ اِسی افضل قادری کی تقریر کے بارے میں وزیرِاعظم عمران خاں نے بھی واضح طور پر کہا تھا ”ایسی تقاریر برداشت نہیں کی جائیں گی جس میں ریاستی اداروں کے سربراہوں کو نشانہ بنایا جائے، بغاوت کی کوشش کی جائے یا ججوں کے خلاف فتوے دیئے جائیں”۔ لیکن وزیرِاعظم کی تقریر کو ابھی پچاس گھنٹے بھی گزرنے نہ پائے تھے کہ حکومت اور دھرنا دینے والوں میں معاہدہ طے پا گیا جس کے تحت آسیہ کا نام فوری طور پر ای سی ایل میں ڈالا جائے گا، نظرِثانی کی اپیل پر حکومت کوئی اعتراض نہیں کرے گی، اگر تحریک کے پاس آسیہ کی بریت کے خلاف شہادتیں ہوںگی تو اِن کے بارے میں فوری قانونی چارہ جوئی کی جائے گی اورگرفتار افراد کو فوری رہا کیا جائے گا۔ معاہدے کا پانچواں نکتہ یہ ہے کہ اگر کسی کی دِل آزاری ہوئی ہو تو تحریکِ لبّیک معذرت خواہ ہے۔ دھرنا ختم ہوا، سڑکیں کھل گئیں اور عوام نے سکون کا سانس لیا۔ اِس دھرنے میں تحریکِ انصاف کے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے لیکن اگر وہ سمجھے تو۔