نو سال قید کاٹنے کے بعد آسیہ بی بی بے قصور ٹھہری اور پاکستان کی سب سے بڑی اور معزز عدالت نے آسیہ بی بی کو بے قصور قرار دے کر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ جس کی صدارت چیف جسٹس ثاقب نثار کر رہے تھے نے 57 صفحات کا فیصلہ جاری کر دیا ہے جس کی کاپی اس وقت میرے پاس بھی موجود ہے۔ جس میں عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ گواہوں کے بیانات میں اس قدر تضاد ہے کہ اس سے شکوک و شبہات پیدا ہو رہئے ہیں۔ صفحہ 21 پر لکھا ہے کہ اس وقت 25 سے 36 خواتین موجود تھیں جب توہین آمیز الفاظ ادا کئے گئے مگر معافیہ بی بی اور اسماء بی بی کے سوا کسی نے بھی اس کی اطلاع نہی دی۔ آسیہ بی بی پر یہ بھی الزام تھا کہ اس نے ایک عوامی اجتماع میں اپنا گناہ قبول کیا تھا۔ یہ ایک خطرناک پہلو تھا۔ اس میں بھی زبردست تضاد دیکھنے میں آیا جب معزز عدالت نے یہ پوچھا تو ایک گواہ نے کہا کہ عوامی اجتماع ایک پانچ مرلے کے گھر میں ہوا جہاں تقریبا 100 لوگ موجود تھے اور یہ اجتماع مختار احمد کے گھر پر ہوا، دوسرے گواہ نے کہا کہ کہ دو ہزار لوگ موجود تھے اور یہ اجتماع عبدل ستار کے گھر پر ہوا، ایک گواہ نے کہا کہ اجتماع رانا رزاق کے گھر پر ہوا۔اس کیس کا ایک اور پہلو سامنے آیا کہ مقدمے کی ابتدائ تفتیش میں کھیت کا مالک جہاں آسیہ بی بی کی لڑائ معافیہ بی بی اور اس کی بہن اسماء سے ہوئ تھی کہیں نہی تھا۔
نہ ہی ایف آئ آر میں اس کا زکر موجود تھا۔ بلکہ وہ خود ایف آئ آر کے کٹنے کے پندرہ دنوں بعد اس کیس میں شامل ہوا اور پھر اس کا کردار مشکوک رہا جیسے کسی کے کہنے پر شامل ہوا ہو۔ اس کیس میں مجھے پاکستانی قوم تین حصوں میں تقسیم نظر آئ ایک حصہ جو بڑا حصہ ہے اس نے اس کیس پر خاموشی اختیار کی دوسرا حصہ جو کہ مسیحی ہیں وہ چھُپ کر خوشی مناتے نظر آئے تیسرا حصہ ان لوگوں کا ہے جو تعداد میں کم ضرور ہیں مگر طاقتور ہیں اور بڑی تعداد ان سے خوفزدہ رہتی ہے وہ سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج شروع کر دیا۔ ان کی طاقت کا انازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے وزیر اعظم عمران خان کو قوم سے خطاب کرنا پڑا گو کہ عمران خان نے بھی کہا کہ ایک چھوٹا سا گروپ احتجاج کر رہا ہے مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہ چھوٹا سا گروپ تھا تو پھر وزیر اعظم کوقوم سے خطاب کی ضرورت کیوں محسوس ہوئ؟۔ اس گروپ کی طاقت کی ایک اور مثال یہ ہے کہ ان مظاہروں میں ملک کی سب سے بڑی عدالت کے ججوں کو سرعام (چھپُکر نہی) قتل کی دھمکیاں دی جارہی تھی۔ اور پاکستان کے سب سے طاقت ور ادارے کے سربراہ آرمی چیف کے خلاف زبان استمال ہورہی تھی اور فوج میں بغاوت کے لئے اکسایا جارہا تھا مگر ان کے خلاف کوئ کاروائ نہی کوئ مقدمہ نہی۔ میرا سوال یہ ہے کہ آسیہ بی بی کے حوالے سے کیا انصاف کے تقاضے پورے ہوئے؟۔ کیا انصاف کا حلیہ یا شکل ایسی ہوتی ہے۔ کیا انصاف اس قدر بدصورت اور بدشکل ہوتا ہے۔
اگر آسیہ بی بی بے قصور تھی تو نو سال جیل میں اس کی سسکیوں اور آنسوؤں زمہ دار کون؟۔ کیا اس کے بچوں نے جو مشکلات اپنی بے گناہ ماں کی جدائ میں برداشت کیں ان کا ازالہ ہو سکتا ہے؟۔ کیا آسیہ بی بی اب پاکستان میں آزادی کے ساتھ نقل و حرکت کر سکتی ہے؟۔ کیا شہباز بھٹی کو واپس لایا جاسکتا ہے؟۔ کیا سلمان تاثیر جس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے بھی یہ ہی کہا تھا جو آج سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ آسیہ بی بی بے قصور ہے۔ اور اس قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے تا کہ اس سے کسی بے قصور کو سزا نہ مل سکے اس بات پر گورنر سلمان تاثیر کو قتل کر دیا گیا تھا۔ کیا پاکستان میں شدت پسندی اور انتہا پسندی میں پہلے کی نسبت اضافہ نہی ہوا؟۔ کیا آج پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین پر بات بھی ہوسکتی ہے؟۔ جیسے کہ نوے کی دہائ میں ہوسکتی تھی؟۔ اور کیا توہین رسالت کا جھوٹا مقدمہ بنانے والے دراصل خود اس جرم کا ارتکاب نہی کرتے اور کیوں بچ جاتے ہیں؟۔ کیا دنیا میں کوئ اور ایسا اسلامی ملک ہے جہاں توہین رسالت کے قوانین اتنے مشکوک سمجھے جاتے ہیں اور ان کے غلط اطلاق سے دنیا میں اس ملک کی بدنامی ہو رہی ہو؟۔ اور کیا غلطی اور گناہ میں تفریق کو سمجھنا ضروری نہی ہے۔ چند سال قبل ایک مسیحی خاتون جو کہ ایک مسلمان گھر میں صفائ کرتی تھی اس نے غلطی سے صفائ کے دوران قرآن کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیا جس سے اس پر توہین مزہب کا مقدمہ درج ہو گیا۔
ایک آٹھ سال کی مسیحی بچی نے لفظ نعت لکھتے وقت نقتہ آگے کر دیا جس سے لفظ لعنت بن گیا اور اس کے بعد اس کے خاندان کو جو مشکلات دیکھنا پڑھیں وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔ یہ شرمناک سوالات پاکستان کو کمزور اور کھوکھلا کر دیں گے۔ آسیہ بی بی کی رہائ پر مسلمان ناراض ہیں ان کو تو خوش ہونا چاہئے تھا کہ ان کے پیارے نبی کی شان میں گستاخی ثابت ہی نہی ہوئ۔ ہالینڈ کے پارلیمنٹ ممبر گیرٹ ویلڈر کے لئے مسلمانوں کا غصہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ توہین کرتا ہے اور اس کا اقرار کرتا ہے مگر آسیہ بی بی تو سب کو کہتی ہے کہ میں نے یہ گناہ کیا ہی نہی تو پھر پاکستان میں تمام مزہبی جماعتوں کا یہ رویہ عجیب ہے کہ وہ ایک کمزور اور بے بس عورت کو تختہ دار پر لٹکتا دیکھنا چاہتے ہیں۔۔ آفیہ صدیقی کے لئے آپ کے دل میں رحم ہے کیونکہ وہ مسلمان ہے مگر آسیہ بی بی کو آپ ب پھانسی پر لٹکتا دیکھنا چاہتے ہو اس لئے کہ وہ مسیحی ہے۔
آپ آفیہ صدیقی کے لئے آواز بلند کریں تو پاکستان کے مسیحی بھی آپ کے ساتھ شامل ہو نگے کیونکہ وہ پاکستان کی بیٹی ہے مگر خدارا آسیہ کو بھی پاکستان کی بیٹی سمجھیں۔ اس وقت جب میں یہ سطور ٹائپ کر رہا ہوں پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاج ہورہئے ہیں۔ اور خبریں ہیں کہ سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف پٹیشن جمح ہو چکی ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ آسیہ بی بی کی سپریم کورٹ سے آزادی کا مطلب یہ نہی ہے کہ مسلئہ ختم ہو گیا ہے بلکہ اگر اس نفرت سے بھری آگ پر قابوں پانے کے لئے عملی طور پر کچھ نہ کیا گیا تو بہت نقصان ہوگا۔ میں وزیر اعظم عمران خان کے نظریات سے اختلافات کے باوجود اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے کم از کم سامنے آکر انتہا پسندی کی اس سیاست کو آنکھوں مین آنکھیں ڈال کر للکارا ہے ورنہ اس سے قبل یہ جرات کسی اور وزیر اعظم نے نہی کی۔ میری اس ن لیگ ، پیپلز پارٹی اور دیگر تمام سیاسی جماعتوں سے یہ اپیل ہے کہ اس وقت متحد ہو کر حکومے کے ہاتھ مضبوط کریں اور پاکستان کو بچائیں۔