حضرت موسیٰ دریائے نیل پار کرکے دریائے سینا میں جب آئے تو ایک دن اپنی قوم کے چالیس افراد کے ساتھ کوہ طور پر تشریف لے گئے اس دوران سامری جادوگرنے تمام بنی اسرائیل کے لوگوں کو جمع کرنا شروع کیا اور جب سب لوگ آگئے تو سامری جادوگر نے کہاکہ تمام لوگ جن کے پاس گھروں میں سونا موجود ہے وہ تمام سونا مجھے لاکر دیدو تو میں تمھارے لیے ایک معبود بنادونگا لہذا بھٹکی ہوئی بنی اسرائیل کے لوگوں نے اپنے اپنے گھروں سے سونا لاکر سامری جادوگر کے سامنے رکھ دیا اس پر سامری جادوگر نے تمام سونا پھگلاکر اس کا ایک بچھڑا بنادیا اور اس بچھڑے کے منہ میں ایک چٹکی خاک جو اس کے پاس موجود تھی ڈال دی جس کے بعد اس بچھڑے کے منہ سے ایک مخصوص قسم کی آواز نکلنے لگی اس آواز کو سن کر بنی اسرائیل کے لوگوں نے اس بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا اور حضرت موسیٰ کی واپسی تک اس کی پوجا کرتے رہے مگر سوال یہ تھا کہ بچھڑاتو بن گیا تھا مگر اس کے منہ سے سوائے ایک آواز نکلنے کے اور کوئی اعضاء کام نہیں کرتا تھا نہ اس کے پاؤں کام کرتے تھے نہ ہی وہ ہاتھوں کو ہلا سکتا تھا اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی جنبش اس کے بدن میں ہوتی تھی ماسوائے ایک قسم کی آواز کے ، جس کا مطلب صرف یہ ہی نکلتا تھا کہ وہ بچھڑے کی شکل میں ضرور تھا مگر حقیقت میں وہ بچھڑا نہیں تھا۔
نجانے کیوں مجھے اسی بچھڑے سے ملتی جلتی جسامت اور آواز موجودہ اور اس سے قبل کی حکومتوں کی پارلیمنٹوں میں جاکر ملتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کیونکہ یہ موجودہ اور اس سے قبل کے بے شمار حکمران بھی مجھے ان ہی جادوگروں کے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم لگتے ہیں جونہ تو امارات کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی معاملے میں ہمیں حکمران دکھائی دیتے ہیں وہ پارلیمنٹ جس کی بالادستی کی ہمیشہ سے ہی قسمیں کھائی جاتی رہی دراصل وہ ہمیشہ سے ہی بالادست ہونے کی بجائے زیر دست بلکہ بے دست و پا نظر آئی ہے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو گورنر جنرل غلام محمد نے پلک جھپکتے میں ہی توڑ دیا ،جنرل ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء لگاکر جمہوری نظام اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو تہس نہس کردیا جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں زوالفقار علی بھٹو کی مظبوط ترین حکومت کو اور اس کی پارلیمنٹ کو ہوا میں اڑا کر رکھ دیااور آئین کا بھی شیرازہ بکھیر دیا اور پھر اس کے بعد جنرل ضیاء نے ایک بار پھر اپنے ہی بنائی ہوئی حکومت کی پارلیمنٹ کو بھی بے دست وپا کرکے چلتا کیااس کے بعد چاہے میاں نوازشریف کے تینوں ادوار کا معاملہ ہو یاپھر محترمہ بے نظیر کی حکومتوں کا مجھے تو ایک پل کے لیے بھی یہ پارلیمنٹ اور اس کی بالاد ستی کا وجود کہیں دکھائی نہ دیا، بلکہ بنی اسرائیل کے اس بچھڑے کی طرح دکھادیا جو سونے کا ہونے کی وجہ سے مقدس تھا مگر اس میں سوائے ایک آواز نکالنے کے اور کوئی چیز اپنی من مانی کرتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔
کچھ اسی قسم کے اختیارات ہوتے ہوئے بھی اختیارات سے محروم پارلیمنٹ کی بے حسی کا خیال دل میں چلا آیاہے ،بنی اسرائیل کا وہ بچھڑا بھی کسی کو کچھ دینے کے قابل نہ تھا اور ہماری یہ مقدس پارلیمنٹ بھی قیام پاکستان سے لیکر آج تک کسی کو کچھ نہ دے سکی ہے بلکہ شاید یہ کہنا درست ہوگا کہ اس پارلیمنٹ کا حال بنی اسرائیل کے بچھڑے سے بھی برا ہوا ہے فرق یہ ہے کہ دونوں کو ہی مقدس مانا گیا مگر ان دونوں نے ہی آج تک کوئی ایسا کارنامہ سرانجام نہیں دیا جس سے ان کے ماسوائے مقدس ہونے کے اور کسی مرض کا علاج ہوتاہو،سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ بچھڑا بھی لوٹ مار کے سونے کا بنا ہوا تھا اور یہ پارلیمنٹ بھی ان ہی لوگوں پر مشتعمل نظر آتی ہے جن میں سے بیشتر کے ارد گرد گھیرا اسی بات پر تنگ ہے کہ انہوں نے ملکی خزانے سے لوٹ مار کی ،میری اس تحریر میں کسی بھی لحاظ سے پارلیمنٹ کی توہین نہیں کی جارہی ہے بلکہ میرا شارہ یقینی طورپر ان لوگوں کی جانب ہے جنھوں نے اپنی من مانیوں سے اس مقدس ایوان کا غلط استعمال کیاجنھوں نے اسے اپنے چمچوں اور غلاموں سے بھردیا ہے جو کسی بھی لحاظ سے ان ایوانوں میں بیٹھنے کے قابل نہ تھے بلکہ انہوں نے اس مقدس ایوان کو نہ صرف بے زبان وبے اختیار کیا بلکہ انہوں نے اس جانب لوگوں کی توجہ کروائی کے یہاں بیٹھ کر اب ملکی قسمت کے فیصلے نہیں ہوتے بلکہ یہاں بیٹھ کر اپنے زاتی گھروں اور بینک اکاؤنٹس کو بھراجاتاہے ، یہ بھی غلط تھا کہ ان مقدس ایوانوں کو چلنے نہ دیا گیا مگر یہ بھی درست ہے کہ یہاں عوام کے کم اور زاتی تقدیروں کے قانون زیادہ بنتے رہے ہیں ان تمام باتوں کے باوجود اگر یہ کہا جائے کہ اس ایوان میں ایسے لوگ ہو جو ایماندار ہو اور محب وطن ہو تب بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہوچکاہے کیونکہ اس پارلیمنٹ کی تقدیر بھی کسی اور ہاتھوں میں بنتی چلی آئی ہے۔
اس کے باوجود اس ادارے کو ہر دور میں خودمختار سمجھا جاتارہاہے اوربات بات پرپارلیمنٹ کی بالادستی کی قسمیں کھائی جاتی رہی میں کبھی سمجھ میں نہیں سکا کہ اس پارلیمنٹ میں ایسے ایسے لوگوں کا وجود آج بھی موجود ہے جن کو اس پارلیمنٹ میں مسلسل تیس تیس سال یا اس سے بھی زیادہ ہوچکے ہیں جو خود کو جمہوریت کا علمبردار اور پارلیمنٹ کا حسن مانتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بغیر پارلیمنٹ کا وجود کچھ بھی نہیں ہیں جو کسی الیکشن میں ہار بھی جائیں تو انہیں کسی نہ کسی طرح سے جتواکر پارلیمنٹ تک لے آتے ہیں ،مگر ان تمام باتوں کے باجود کسی کو آج تک یہ پوچھنے کی زحمت نہ ہوئی کہ انہوں نے اس پارلیمنٹ کے لیے آخرایسا کیا کیاہے جو انہیں باربار ان ایوانوں میں لانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیے اسی لیے یہ پورا پاکستان جاننا چاہتا ہے کہ اس پارلیمنٹ کی اصل چابی کس کے پاس ہے جمہوری اداروں کے پاس یا کسی اور کے پاس ؟ اس کے علاوہ لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ آخر کون ہے جو راتوں رات انتخابی عملوں کا رزلٹ بدل دیتاہے ؟ اس وقت کہاں ہوتی ہے پارلیمنٹ کی بالادستی جب ایک منتخب وزیراعظم کو راتوں رات گھر بھیج دیا جاتاہے نہ کوئی قرارداد اور نہ ہی کوئی سانحہ اور سب منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ رات تک تو سب کچھ ٹھیک تھا پھر یہ اچانک کیا ہوگیا۔؟
یقین جانیے بعض اوقات یہ تمام باتیں سوچتے ہوئے میرا دماغ گھوم سا جاتاہے۔سوال یہ پید اہوتا ہے کیا یہ پارلیمنٹ اپنی اتھارٹیز کا غلط استعمال کرتی ہے تو ان کو گھر بھیج دیا جاتاہے ؟ یا کبھی کبھی اپنی مرضی کے لوگ لانے کے لیے ایسا کیا جاتاہے مگر ان تمام باتوں میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ ایسا ہے کون جو دکھائی تو نہیں دیتا مگر اپنے ہونے کا احساس دلا جاتاہے ،قائداعظم خود بھی ملک کے نظام کو اسی طرز پر چلانے کے خواہش مند تھے کیونکہ یہ ملک جس میں مختلف قومیں آباد تھی اس لیے ان تمام قوموں کی بہتری صرف اور صرف جمہوری نظام میں ہی پنہا تھی یہ درست ہے کہ پارلیمنٹ کے منظور شدہ قوانین کو عدالتی عمل سے گزارا جاتاہے اور جو قانون آئین اور قانون سے بالا تر ہو اس کو کلعدم قرار دینا بھی پھر ضروری ہوجاتاہے ۔ کیونکہ یہ پارلیمنٹ ہی ہے جہاں غریب اور مستحق لوگوں کے مسائل حل ہونے کی بجائے چوروں اور ڈاکوؤں کے بچاؤ کے لیے این آر او بنتے رہے ،پھر کہا جاتاہے کہ پارلیمنٹ کو اپنا حق استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے اس پر یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ ایسی پارلیمنٹ کو جس میں ایسی دنیا آباد ہو اسکابالا دست ہونے کی بجائے زیر دست رہنا ہی ٹھیک ہے ۔ آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔