نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتیں ہیں زنجیریں
اقبال کا فلسفہ انسانِ کامل چار اجزاء پر مشتمل ہے یعنی خودی، عشق، عبادت اور نیابت۔انسان زمین پر خدا کی تخلیق کا سب سے منفرد کمال اور ایک ایسا مرقع ہے جو بذاتِ خود بہت سے کمالات کا مجموعہ ہے۔ انسان کو یوں تو بے شمار خدا دا د صلاحیتوں سے نواز گیا ہے مگر ذہن اور دل دو ایسی انمول قوتیں ودیعت کی گئی ہیں جو اس کو ہجوم بے کراں میں ممتاز حیثیت عطا کرتی ہیں۔ دل جمالی صفات سے انسان کی ذات کو مزین کرتا ہے جبکہ ذہن اس کے لیے سمتوں کا تعین کرنے میں مددگار کردار ادا کرتاہے چونکہ انسان کی سوچ اور عمل اس کی ذات کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا دونوں مل کر انسان کی ذات کی تعمیر و تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ذہن و دل کی مشترکہ کاوشیں ہیں جو انسان کو انسان بناتی ہیں۔ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ذہن و دل باہم متصادم نظر آتے ہیں۔ دل اگر مشرق کی بات کرتا ہے تو دماغ مغرب کی شان میں رطب اللسان ہے جو بات ذہن کے نقطہ نظر سے درست و صادق آتی ہے،دل اس کی نفی کر دیتا ہے گویا دونوں کے مابین خاموش اور بظاہر نہ نظر آنے والی جنگ چھڑجاتی ہے جو انسان کی بے چینی، اضطراب، پریشانی اور کشمکش کی صورت میں آشکار ہوتی ہے۔ انسان کے اندر ہونے والی اندرونی ٹوٹ پھوٹ ظاہری طور پر غصے کو جنم دیتی ہے جو انسان کی شخصیت کی توڑ پھوڑ کا حوالہ بن جاتی ہے مگر ایسا نہیں کہ اس پر قابو نہ پایا جا سکے، دماغ کی سختی کو دل کی نرمی سے اور دل کے جذباتی پن کو دماغ کی سمجھداری سے متوازن کیا جا سکتا ہے اور دل و دماغ کا یہی توازن ایک بہتر طرزِ زندگی کے حامل انسان کو جنم دیتاہے، جس کی ظاہری طمانیت اندرونی سکون کی خبر دیتی ہے اور ایسا انسان ہی معاشرے کے لیے امن کا پیغامبرثابت ہوتا ہے جس کے دل و دماغ اس کی گرفت میں ہوں نہ کہ وہ دل و دماغ کے ہاتھوں کھلونا بنا ہوا ہو، ایسے ہی انسان کی تمنا فکر اقبال کا نہایت اہم حصہ ہے۔ کلام اقبال میں ایسے انسان کے لیے ”مردِ کامل” ، ”مردِ حق”، ”مردِ مومن” اور ”قلندر” وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
”مرد کامل” اقبال کے تفکر سے تراشیدہ وہ مجسمہ ہے جس میں ایمان اور یقین کی روح پھونکی گئی ہے، جس کے ارادے آسمان کی مانند بلند اور چٹان کی طرح سنگلاخ اور مضبوط ہیں۔ جس کی آنکھوں سے سچائی کا نور نکل کر اطراف کو منور کرتا ہے، جو سمندر کی تہہ تک جھانکنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جو سوچوں کو جانچنے اور پرکھنے کی قدرت سے مالا مال ہے۔ اقبال کا مردِ کامل یہ اور ان جیسی بے شمار خوبیوں کا حامل ہے جو ایک عام انسان کو خاص بنا کر اس کے مقام اور مرتبے کو افضلیت سے ہمکنار کرتا ہے۔ اقبال ہر فرد کو ”مرد کامل” کے مقام پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے تفکر کے یہ موتی ہر دور کے انسان کے لیے مشعل راہ ہیں۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
حکیم الامت کے اس تصور کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں اس کو نطشے کے تصور فوق البشر سے بھی ماخوذ کیا جاتا ہے مگر درحقیقت اقبال کا مرد کامل ان سب سے یکسر مختلف ہے۔ اقبال کا مرد کامل ان کی ایمان افروز سوچوں سے تراشیدہ پیکر ہے جو ہمہ وقت ایمان و یقین کے گرد طواف کرتا ہے اور اسلامی تعلیمات پر مبنی ہے۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
مرد کامل کی ضرورت ہر دور میں ہر معاشرے کو پڑتی ہے۔ اقبال کے تصور سے مرد کامل کی جو شبہہ عیاں ہے اس کا موازنہ اگر دور حاضر کے انسان سے کریں تو ایک بڑا سوالیہ نشان نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔ نظر شرقاً غرباً پھیلے فاصلوں کو طے کر کے بھی نامراد لوٹتی ہے اور طول و عرض کو ناپنا بھی بے سود ثابت ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ”مردِ کامل” ایک ایسا انسان ہے جو اپنی ذات سے آگاہ ہے، ایک ایسا سمندر ہے جس میں بے پناہ علوم موجزن ہیں اور جس کے جتنا قریب جائیں اتنے ہی آگہی کے دَر وا ہوتے ہیں، اتنے ہی دھندکے پردے چھٹنے لگتے ہیں اور اتنے ہی روشن گوہر ہاتھ لگتے ہیں۔ آسان لفظوں میں اگر کہا جائے تو ”مردِ کامل” ایک باعمل انسان ہے جو اپنے عمل کے توسط سے تسخیر و فتح کے مراحل طے کرتا ہے کیونکہ فتح و نصرت اس انسان کا مقدر بنتی ہے جو اپنے ارادوں کو عملی صورت میں قیام پذیر کرنا جانتے ہیں۔ فتح صرف وہ نہیں جو کار زار جنگ میں حریف کو زیر کرنے پر ملتی ہے بلکہ حقیقی فتح باطل سوچوں کو جھٹکنے اور اپنے نفس کو قابو کرنے میں مضمر ہے۔ آج کے انسان کو سب سے زیادہ جن دقیق حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہی منفی سوچیں ہیں جو ارادوں کو متزلزل کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ارادوں کی پختگی سے ہی عمل میں مضبوطی آتی ہے اور عمل ہی انسان کو عرش سے فرش اور فرش سے عرش تک لے جاتا ہے۔ اقبال بھی اپنے اس مصرعے میں اسی نکتے کو بیان فرماتے ہیں
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
مگر آج کے انسان میں عمل کا فقدان ہے اور اسی بے عملی کی وجہ سے ماضی کا انسان جو اعلیٰ و ارفع مقام تک پہنچ چکا تھا اور جس میں ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی صلاحیت تھی ۔ آج حال میں بے یارومددگار اور عقلی لحاظ سے نحیف و نزار ہو چکا ہے کیونکہ اس کے فکرونظر اور سوچ کے تمام پیمانے ٹوٹ چکے ہیں آج کے انسان نے خود کو اپنے مقام سے خود ہی نیچے گرا لیا ہے۔ آج کا انسان مادیت کے جال میں پھنس چکا ہے اس کی سوچ اور عمل حرص و طمع سے لتھڑے ہوئے ہیں جبکہ اقبال جس مرد کامل کے بانی ہیں وہ ان تمام مکروہات سے مبرا ہے اس کے لیے مال و زر بے معنی ہیں بلکہ اس کا اصل مقصود صرف اور صرف شہادت ہے
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
مرد مومن کی یہ امتیازی شان ہے کہ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے ان دنیاوی آلائشوں سے خود کو دور رکھتا ہے اگر آج کے انسان کو ”مرد کامل” کے مرتبے پر فائز ہونا ہے اور اس کھوئے ہوئے مقام و مرتبے کو پھر سے پانا ہے تو خود میں فولاد کی سختی اور کردار کی مستی پیدا کرنی ہو گی، اپنے زور بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے ایام کا مرکب نہیں راکب بننا ہوگا۔ ریشم کی نرمی اور شبنم کی ٹھنڈک کو مزاج کاحصہ بنانا ہو گا اور فقر و استغناء کا دامن تھام کر آگے بڑھنا ہو گا کیونکہ مومن کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا، ان تمام اجزاء کو مٹی میں گوندھنے کے بعد اس مٹی سے جو تخلیق ابھرے گی اسے صحیح معنوں میں ”مرد کامل” کے لقب سے ملقب کیا جائے گا جس کی ضرورت موجودہ حالات میں بہت زیادہ ہے۔
عالم تبدیلی کا خواہاں ہے اور تبدیلی مرد کامل کی منتظر، ہر شے پر ہر ذی روح پر نقل کی ملمع کاری ہے اور اس نقل کی اصل کہیں کھو چکی ہے کیونکہ ظاہرنے باطن اور اس کی حقیقتوں کو ڈھانپ رکھا ہے۔ انسان کی آنکھ ظاہر کی چکا چوند میں الجھ کر باطن تک رسائی کے راستے کو بھول چکی ہے۔ دنیا میں رونما ہونے والے حالات و واقعات پر تبصرہ کرنا، حقائق و شواہد کی جانچ پڑتال کرنا، خیالات کا تبادلہ کرنا اور دلائل دینا سب کو بہت محبوب و مرغوب ہے مگر انسان کی ذات میں چھپے حقائق کو جانچنے اور معلوم کرنے کا ہنر مفقود ہے کیونکہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جا سکتی مگر اس حقیقت سے چشم پوشی ممکن نہیں کہ ”مردِ کامل” کے منصب تک رسائی تب ہی ممکن ہے جب انسان کو خود کی ذات تک رسائی حاصل ہو جائے گی اقبال نے مرد مؤمن کا ایک پہلو بیان کرتے ہوئے کہا:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن
اس کائنات کی عظیم ہستی حضرت محمدؐ کی شخصیت اور اسوہۂ زندگی ہی مردمومن کی زندگی ہے۔ یہی اخلاق اور ضابطۂ حیات وہ مسلمانوں میں دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ دنیا کی سربلندی حاصل کریں اور ساری انسانیت کی فلاح وبہبودی کا ذریعہ بنیں۔