اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کی حکومت نے انکشاف کیا ہے کہ انھوں نے پانچ ہزار ایسے بینک اکاؤنٹس کی نشاہندہی کی ہے جنھیں مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔
اسلام آباد میں وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ تقریباً ایک ارب تیس کروڑ ڈالر پاکستان سے غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ پاکستانیوں کی جانب سے غیر قانونی طور پر بیرون ملک بنائے گئے اثاثوں کی جانچ پڑتال کر رہا ہے اور اب تک دس ممالک میں سات سو ارب روپے کے اثاثوں کی تفصیلات موصول ہوئی ہیں۔
یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان، فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر مشتمل ایک خصوصی پلیٹ فارم ایسٹ ریکوری یونٹ تشکیل دیا گیا ہے جس کا مقصد بیرون ممالک پاکستانیوں کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرنا ہے۔
وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی شہزاد اکبر کے ساتھ پریس کانفرنس میں سینیٹر فیصل جاوید اور وزیراعظم کے مشیر اکبر درانی بھی موجود تھے۔
وزیر اعظم کے مشیر اکبر درانی نے بتایا کہ دبئی میں پاکستانیوں کی 15 ارب ڈالر مالیت کی جائیدادیں موجود ہیں اور اس سلسلے میں دبئی کے حکام سے بات چیت جاری ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ملک میں اقامے کی آرڑ میں بہت زیادہ منی لانڈرنگ ہوئی ہے۔‘
اکبر درانی نے واضح کیا کہ اثاثوں کی یہ تفصیلات تحقیقات کے بعد سامنے آئی ہیں لیکن بدعنوانی کے بارے میں جب کوئی ریفرنس دائر کیا گیا تو میڈیا کو اس کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے گا۔
مبینہ منی لانڈرنگ کی تفصیلات ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں جب سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات معلوم کرنے کے ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کے مقدمے میں جے آئی ٹی کو تحقیقات مکمل کرنے کے لیے مزید دو ہفتوں کی مہلت دی ہے
پیر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی اور اس دوران جے آئی ٹی نے اب تک کی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی ہے۔
سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے مقدمے کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی کو تحقیقات مکمل کرنے کے لیے مزید دو ہفتوں کی مہلت دی ہے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر اومنی گروپ کے عبدالغنی مجید کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔