کراچی میں تجاوزات کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ کے احکامات پر کے ایم سی پتھارے، فٹ پاتھ پر قبضے، کچے بازاروں پر اس طرح چڑھ دوڑی ہے جیسے شہر بھر میں تجاوزات اور غیر قانونی قبضے کسی خلائی مخلوق نے ایک دن میں ہی کرلیے تھے۔ اعلیٰ عدلیہ کا تجاوزات ختم کرنے کا حکم سر آنکھوں پر، لیکن اہل کراچی اچھی طرح جانتے ہیں، یہ عمل کئی مرتبہ دہرایا جاچکا ہے۔ اس وقت بھی جو کچھ ہورہا ہے، یقینی طور پر کچھ وقت بعد دوبارہ انہی جگہوں پر غیر قانونی قبضے و تجاوزات قائم ہوجائیں گی۔
لانڈھی، دائود چورنگی، بابر مارکیٹ، مرغی خانہ، گلستان جوہر، شاہ فیصل کالونی، صدر ایمپریس مارکیٹ، لیاقت آباد سپر مارکیٹ، کریم آباد، غریب نواز مارکیٹ، فرنیچر مارکیٹ، اکبر مارکیٹ، اردو بازار، جامع کلاتھ، بوہری بازار، کھارادر، میٹھادر، دبئی بازار، کیماڑی، جیکسن مارکیٹ، علی گڑھ مارکیٹ، پاپوش نگر، حیدری مارکیٹ، طارق روڈ، کھڈا مارکیٹ، محمودآباد، منظور کالونی، پٹھان کالونی، بنارس ٹائون، اورنگی ٹائون، بنگلا بازار، پاکستان بازار سمیت اَن گنت ایسے تجارتی مراکز ہیں جہاں برسہا برس سے ہزاروں پتھارے والے کام کاج کرتے ہیں۔ ان مارکیٹوں میں مہنگی دکانیں اور گراں فروشی کے سبب یہ پتھارے والے فٹ پاتھ اور ذیلی سڑکوں و چورنگیوں پر ٹھیلے پتھارے لگاکر روزگار حاصل کرتے ہیں۔
صدر اور ایمپریس مارکیٹ کے ساتھ اکبر مارکیٹ، گلستان جوہر و کچھ علاقوں میں کے ایم سی نے بلڈورز چلائے ہیں، جس سے ہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔ متبادل روزگار کے لیے ان کے پاس اب ذرائع نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کے ایم سی یہ عمل پہلے بھی کرتی رہی ہے اور پتھارے اٹھاکر لے جاتی اور پھر جرمانے کے ساتھ اپنے ’’بیٹر‘‘ کے ریٹ بڑھاکر دوبارہ یہ بازار لگاتے ہیں اور یہ عمل گزشتہ کئی دہائیوں سے ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ ہزاروں پتھاروں کے ساتھ ان سے جڑی مارکیٹوں سے اربوں روپے بھتہ وصول کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی شریفانہ انداز میں’’امداد‘‘کے نام پر چندہ دیتے ہیں۔ کراچی میںجس کا جھنڈا اورڈنڈا مضبوط ہوتا ہے وہ غریب پتھارے دار ہو، مارکیٹ کا دُکان دار، تاجر یا صنعت کار سب پر یکساں پڑتا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اب یہ پتھارے والے کیا کریں گے، بلکہ میرے نزدیک تو مسئلہ یہ ہے ان سرکاری افسران کے خلاف نوٹس نہیں لیا جاتا جو تمام تجاوزات کے کرتا دھرتا ہیں۔ سب سے پہلے انہیں برطرف کرنا چاہیے، جن کے باعث کئی دہائیوں سے پتھارے لگ رہے ہیں، ٹھیلے والے سڑکوں پر براجمان اور یہ ہر ہفتے لاکھوں روپے رشوت اور کروڑوں روپے بھتے کی صورت لیتے ہیں۔ ایمپریس مارکیٹ سمیت تمام تجارتی مراکز کے پتھارے دار روزانہ سرکاری اور غیر سرکاری افراد کو کروڑوں روپے بطور رشوت یا بھتہ دیتے ہیں۔ یہ مجبوری بھی ہے کیونکہ کروڑوں روپے مالیت کی دُکانوں میں عام بازاروں کی بہ نسبت ہزار گنا ریٹ پر فروخت کے باعث انہیں خریدنے کی غریب و مڈل کلاس طبقے میں سکت نہیں۔
کروڑوں مالیت کی دُکانوں میں خریداری کے لیے اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقہ ہی جاتا ہے۔ ان کے لیے ایک ہزار کا کپڑا دس ہزار روپے میں خریدنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ہیئر کِلپ جو پتھارے میں دس روپے کا ملتا ہے، وہ ایئرکنڈیشن مارکیٹ میں 2 سو روپے کا ملتا ہے۔ ایک جوتا جو کچی مارکیٹوں، پتھارے اور فٹ پاتھ پر دو سو روپے کا ملتا ہے، اسی ’’برانڈ‘‘ کا جوتا ایئرکنڈیشن مارکیٹوں میں ہزاروں روپے مہنگا ملتا ہے، کیونکہ اس کوالٹی پر’’انٹرنیشنل برانڈ‘‘کی مہر لگ جاتی ہے۔ یہاں کوالٹی نہیں بلکہ برانڈ دیکھا جاتا ہے۔
مسئلہ پتھاروں اور ٹھیلوں کو ختم کرکے مرکزی سڑکوں کو صاف کرنے کا ہی نہیں بلکہ ان اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کی تطہیر کا بھی ہے جو ان تمام اسباب کے ذمے دار ہیں۔ کراچی میں سابق دور کے ناظمین نے فٹ پاتھوں پر کیبن بناکر لاکھوں کروڑوں روپے میں بغیر ٹینڈر فروخت کیے تھے۔ یہ کیبن اسی جماعت کے رکن کو ملتے جو ان کا’’وفادار‘‘ ہوتا۔ روش عام تھی کہ کراچی سے باہر سے آنے والوں کے ٹھیلے جلادیے جاتے، پتھاروں کو آگ لگادی جاتی، روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کو تنگ گلیوں میں لے جاکر ڈرل کردیا جاتا، ٹیکسی، رکشا والوں کے ہاتھ پیر توڑ دیے جاتے، ان کی قسطوں پر لی گئی گاڑی کو جلاکر خاکستر کردیا جاتا، مزدا، بسوں، ٹرک، ٹریلروں کو آناً فاناً جلادیا اور اربوں روپے کا نقصان پہنچادیا جاتا، برف بیچنے والا ہو یا پھر مونگ پھلی فروخت کرنے والا، اس کی بوری بند لاش، ندی نالوں میں ملتی۔ کسی ادارے نے مداوا کیا؟ نہیں۔۔۔!
مسئلہ یہی ہے کہ قصور عام افراد کا نہیں بلکہ انتظامیہ اور ان سے وابستہ سیاسی جماعتوں اور کالعدم تنظیموں کا ہے۔ انتظامیہ قریباً سیاست زدہ ہے، جو اپنی جماعت کی وفادار ہوتی ہے۔ جس کی حکومت ہوگی تو سب ان کے لیے ٹھیک ٹھاک ہے۔ سرکاری زمینوں پر بلند بالا عمارتیں بناکر اربوں روپے کمانے والوں پر کوئی ایکشن نہیں۔ پہاڑیاں کاٹ کر بڑی بڑی نجی ہائوسنگ اسکیم بنانے والے کسی کو نظر نہیں آتے۔ کچی آبادیوں پر ہزاروں ایکڑ پر قبضے کرکے تین ہزار کا پلاٹ کروڑوں روپے میں فروخت کرنے والوں پر کبھی بلڈوزر چلتے نہیں دیکھا۔ کھربوں روپے کے غیر قانونی پروجیکٹ پر کسی کی نظر نہیں۔ 200گز کا ایک بنگلہ خرید کر 20منزلہ بلڈنگ بنانے والے کسی کی شفافت کے ریڈار میں نہیں، کیونکہ یہاں بھی ’’برانڈ‘‘ ہے۔
کسی بھی حکومت کا بس چلتا ہے تو محض پتھارے و ٹھیلوں والوں پر۔ اعلیٰ حکام کو رپورٹ دے دی جاتی ہے کہ تجاوزات کے خاتمے میں کتنے ہزار پتھارے گرائے گئے، کتنی ہزار تجاوزات کا خاتمہ کیا، دوسرے معنوں میں لاکھوں افراد کو بے روزگار کیا، لیکن کبھی یہ نہیں دیکھا کہ سرکاری زمینوں پر قائم چائنا کٹنگ والے بنگلے گرائے گئے ہوں، رشین کٹنگ پر قائم مارکیٹ کا خاتمہ کیا گیا ہو۔ کراچی کو پتھروں کا شہر بناتے بناتے اہلیان شہر بھی پتھر کے ہوگئے ہیں۔ قانون سب کے لیے یکساںہونا چاہیے۔ پتھارے، ٹھیلے پر کام کرنے والے غریب طبقے سے تعلق رکھتے اور اپنے خاندانوں کے کفیل بھی ہیں۔ میں حمایت کرتا ہوں کہ تجاوزات کا خاتمہ ہونا چاہیے، لیکن جن ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی سرپرستی میں لاقانونیت ہوئی، پہلے انہیں کٹہرے میں لایا جائے۔ اہلکاروں اور افسران کی بدعنوانیوں پر بلڈوزر چلایا جائے۔ سرکاری زمینوں پر بنائی گئی غیر قانونی بلڈنگوں، شادی ہالوں، چائنا اور رشین کٹنگ، کھیل کود کے میدانوں اور پارکوں میں قائم قبضوں پر بلڈوزر چلایا جائے۔ انصاف کا میزانیہ سب کے لیے یکساں ہو۔ بے روزگار ہونے والوں کو متبادل جگہ دی جائے، تاکہ وہ اپنا روزگار جاری رکھ سکیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ پہلے بڑے مسئلے کو ختم کیا جائے تو چھوٹا مسئلہ کبھی پیدا ہی نہ ہو۔ کسی غیر قانونی عمل کو سپورٹ نہیں کرنا چاہیے، لیکن انصاف ایسا ہو جو سب کو نظر آئے۔ اور فخر سے کہہ سکیں کہ ساڈے لائق کوئی ہور خدمت۔۔۔!