کسی دور میں پی ٹی وی ڈرامہ لگتا تھا جس کانام (جانگلوس) تھا اسی سے ایک سین دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں لندن سے گریجویٹ کرکے آنے والے ملک حیات اپنے پر شکوہ آرائش وزیبائش سے آ راستہ وپیراستہ غنچے وپھولوں سے مزین محل میں اپنی عملی زندگی کا آغاز کرتا ہے ،انداز زندگی کچھ اس طرح تھی کہ اپنے زعم میں ایک خود مختار بادشاہ کی حیثیت رکھتا تھا ،اس چہار دیواری عمارت کے طول وعرض سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک انسان دوست کی رہائش گا ہ ہے، مگر اندرو ن خانہ وہ انسانیت کے لئے ایک سلگتی بھٹی تھی جس نے اپنے ہی محسن ومربی بڑے بھائی ملک ریاض کی جاگیر پرنہ صرف قبضہ کیا بلکہ اس کو پاگل مخبوط الحواس کہ کر اسی کوٹھی میں محبوس کردیا تھا ، شقی القلب اتنا کہ اپنے بھائی کو کوڑے مارمار کر ادھ موا کردیتا تھا ،وہ بے چارہ ایسے ہی گھٹ گھٹ کر مر گیا۔
محل کے گلستان میں بلبل نالہ وشیو ن تو کرتی سنائی دیتی لیکن کبھی کئوئل نے موسم بہار کی نوید کا آوازہ باد صبا کے ٹھنڈے جھونکوںسے بلند نہیں کیا تھا۔جس کے باغ ہر سال بار آور تو ہوتے کبھی پک کر اپنے میٹھے ہونے کی داد نہ پاسکے ، وہاں پھول ہی کیا کھلتے کہ پنکھڑی بننے سے پہلے ہی مرجھا جاتے ،ماہتاب صبح کی کرنیں کیا اجالے کرتیں کہ خورشید آسمان کی ہر کرن پر ظلمات کا سایہ ابر کی طرح مسلط تھا ، اس کی بربریت سے دن ورات کا فرق مٹ چکا تھا ، او ر رات کی سیاہی بھی اس کے سیاہ کن کارناموں سے بھی شرماجاتی تھی ،وہ انسان نما وحشی تھا اور انسانی لباس میں چھپا بھیڑیا تھا ،ہر وقت اسکے مکروہ چہرے سے فرعونیت ونمرودیت کی کالک چمٹی رہتی تھی۔
اور اپنے آ پ کو ایک مطلق العنان بادشاہ تصور کرتا تھا و ہ نام کا حیات تھا مگر حیات آدمیت کیلئے ایک خون خوار بھیڑیا تھا ،وہ خون بشر کا اتنا پیاسا تھا کہ درندے بھی اسکی درندگی کو دیکھ کر شرماجائیں ،طلب جاہ ،ہوس ملوکیت کا انتہاء درجے کا پجاری تھا ۔اس کے نوکر چاکر کیا تھے آنکھوں کی بصارت کے باوجود اندھے ،قوت سماعت کے باوجود بہرے ،زبان کے ہونے اور بولنے کی استطاعت کے بعد بھی وہ گونگے تھے ،کسی کی مجال نہیں آپس میں کوئی بات کرسکے ،سفاک اتنا کہ محل کا فرش ہی انسانیت کا قبرستان بن چکا تھا ،وہ ایک ریاست میں اپنی ریاست بنا چکا تھا مگر کس میں جرات اس سے پوچھ سکے کیا سپاہی ،وافسران ،ہر کوئی اتھارٹی رکھنے کے باوجود اس کے سامنے بے اختیار تھے ، وہ جس کو چاہتا اسکی زبان کٹوادے کسی کی گردن اڑادے تو کسی کو زندہ درگور کردے کوئی اس سے سوال کرنے والا نہیں اور نہ ہی اس کے حکم کی عدولی کرنے والا تھا ،حقیقت تو یہ ہے یہ زمین تو شہنشاہ عالم کی ملک ہے وہ جسے چاہے دودن کی جاگیر عطاء کردے اور جب چاہے چھین لے
اس پر نہ مان اور نہ ہی ارمان چونکہ بندہ ہے حکم ربی کا غلام ۔ موجودہ دور میں جہاں ہم مادی ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے وہیں ہم نے ایک دوسرے کی حفاظت کا ذمہ اٹھا یا تاکہ ترقی کی راہیں آپس کے خلفشار سے مسدود نہ ہوجائیں ،دنیا کو گلوبل ویلج کی شکل دے کر ہم نے ایک دوسرے کومزید قریب کرلیا تاکہ کوئی کسی ظالم کی اذیت ونحوست کا شکار نہ رہے ،اور کوئی قوم کسی کے عزم کی بزم کو مسمار نہ کرسکے ۔اور دنیا نے مل کر ایک دوسرے مسائل سے آگا ہ ہو کر خوب باریک بینی سے مشاہدہ کیا جہاں ظلم کی راتیں برپا ہوتیں ان پر قد غن لگائی گئی ،میڈیا کے ذریعے قوموں کو باخبر کیا گیا ہر ظالم کے ظلمت کدہ کی آگ کو بجھاینے کی کوشش کی گئی ،سوئی ہوئی ستم رسیدہ قومیں بیدار ہوئیں ،سپر پاور طاقتوں کے طاغوتی دل ربا نعروں خوش نما آوازوں اور دل کشاوعدوں کے لبادے انہی صحافت کے حقیقی پاسبانوں کے توسط سے چاک ہوئے۔سلگتے گھر کی چنگاری بھی بدلہ لینے والی ہے ۔۔۔۔یہ منظر دیکھنا لیکن سنبھل کے دیکھنا اب کے۔ اقوام وملل کے اتنا ہوشیار ہونے کے باوجود بھی آج اس جانگلوس ڈرامے کے مناظر حقیقت بن کر ہمارے سامنے چیخ چیخ کر اپنی مظلومیت کا احساس دلا رہے ہیں ،اسی ناحیات کے ناخلف شاطر وعیار بیٹے دو فٹ کی مذعومہ بادشاہت کا ڈھونگ رچا کر انسانیت کی تذلیل کرتے نظر آرہے ہیں ،انہی کے گماشتے بصارت کے باوجود بصیرت سے محروم ہوگئے ،منہ میں زبان رکھنے کے بعد بھی کلمہ حق کہنے کی طاقت سلب کرلی گئی ،وہ مقہوروں اور مجبوروں کی آہوں اور سسکیوں کو عقوبت خانوں میں سننے کے بعد بھی پتھر دل ہوگئے ہیں ،کسی کی آہ وبکا ،عزت ،عظمت ،علم سب کچھ ان کے سامنے ہیچ ہے ،یہ اگر کسی ملک کو وقوم کو مٹانا چاہیں تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ،چند منٹوں میں عراق کو آ گ وخون کے تھپیڑوں سے تباہ کردیتے ہیں ،یہ تو ہنستے بستے افغان کی دھرتی کو کلسٹر بموں کی بارش سے ویرا ن کردیتے ہیں ۔ان کے سامنے ایک شخص کی کوئی اوقات نہیں ،حالانکہ میرے حضور ْۖ نے فرمایاتھا : خدا کے نزدیک انسان کے خون کاایک قطرہ نا حق گرے اس کے بدلے آسمان وزمین تباہ ہوجائیں یہ تو برداشت ہے لیکن مسلم خون کا گرنا اللہ کی بادشاہت کو برداشت نہیں۔
حق کے شیدائی ہر جابر کے جبر کا پردہ چاک کرنے کی تگ ودو میں جہاں اپنی قیمتی جانیں گنوا دیں وہیں اس جرم کی پاداش میں اپنے جگر گوشوں کے لاشے دیکھ کر اپنی آنکھوں سے اشکوں کے پیمانے چھلکتے ضرور دیکھے پر حق وصداقت کے دیپ کی لو کبھی مدھم نہ ہونے دی۔ بادشاہت ،وجمھوریت ،اور جبرواستبداد کے ناآ شنا اجنبی جھونکے جس سمت سے بھی اور جب کبھی آئے اور کتنے ہی خوبصورت لباس میں چھپ کر آ ئے ان شیر دل سپاہیوں نے ان کو اور ان کے گماشتوں دنیا میں ننگا کرکے رکھ دیا ۔ ہتھکڑیاں ،جیلیں ،نت نئے ہتھکنڈے ،آنکھیں نکالنا ،ٹارچر کرنا ،اپاہج کردینا ،گردن اڑادینا ،انسانی اعضاء کا مثلہ کرنا ،زبانیں کھنچوا لینا ،ان خسیسوں کا وطیرہ رہا ہے۔
حال ہی میں ایک خونچکاں اور الم ناک سانحہ پیش آیا جس میں کبر ونخوت میں لتھڑے ناہنجار بد طینت چھوکروں نے کتنی بے دردی سے ایک حق گو باصفا صحافی کو زندہ کاٹ کر اپنا گھناونا اور مکروہ چہرہ دیکھایا ،یہ خبث باطن کا قبیح ترین اظہار ہے ،جس دنیا نے کتے اور خنزیر ،اور بلی گائے کے حقوق وضع کررکھے ہوں لیکن ایک سچے انسان کیلئے کچھ نہ کرسکتے ہوں ،دن دیہاڑے اس کے اعضاء کو کاٹ کر کوڑے میں ڈالا جا ئے ان کو اس دنیا میں رہنے کا کوئی حق نہیں، یہ انسانی حقوق کے علمبرداروں پر زوردار طمانچہ ہے ،اور یاد رکھیں دنیا میں ناحیات ،اور جھوٹی بادشاہت کے کیڑے مکوڑے ایسے مٹ جائیں گے کہ انکا نام تک نہ ہوگا ناموں میں ،پر حسین بن علی ا حمد بن حنبل ،وابن تیمیہ کے فرزند اپنا مشن بھی پورا کریں گے ،چاہے کہ خون کی ندیاں کیوں نہ بہ جائیں ، لیکن یہ شجاعت ودلیری کامظاہرہ کرتے ہویا پنی حق گوئی کا لوہا منوائیں گے۔
بقول شاعر ! جو ہوں فرعون ان کو میں خدا کہ دوں یہ مشکل ہے ۔ جو ہوں دجا ل ان کو انبیاء کہ دوں یہ مشکل ہے ۔ مجھے زنجیر پہنادو ،مجھے سولی پے لٹکا دو مگر میں رہزنوں کو رہنما کہ دوں یہ مشکل ہے قباپوشی کے پردے میں جو عیاشی کے رسیا ہیں میں ایسوں کو شیوخ وصوفیاء کہ دوں یہ مشکل ہے کھلی اانکھ جو کچھ دیکھتا ہوں صاف کہتاہوں کسی کے ڈر سے ظلمت کو ضیاء کہ دوں یہ مشکل ہے جو طوفان کی خبر سن کرلرزتے ہیں کناروں پر میں ایسے بزدلوں کو ناخدا کہ دوں یہ مشکل ہے یہی اک بوریا ہے چھین لیں درویش سے بے شک شہنشاہوں کو ظل کبریاء کہ دوں یہ مشکل ہے ۔۔ میں جمال خاشفقجی کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں ۔