غزہ (جیوڈیسک) اسرائیل کے انتہا پسند وزیر دفاع ایویگڈور لائبر مین نے غزہ میں جنگ بندی کے خلاف احتجاج کے طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
لائبرمین کا تحریری استعفا اعلان کے 48 گھنٹے کے بعد مؤثر العمل ہوگا۔ انھوں نے مصر کی ثالثی میں فلسطینی تنظیم حماس کے ساتھ جنگ بندی کو ’’ دہشت گردی کے آگے ہتھیار ڈالنے ‘‘کے مترادف قرار دیا ہے۔
مسٹر لائبرمین کا کہنا ہے کہ ’’ اس وقت ہم ایک ریاست کی حیثیت سے جو کچھ کررہے ہیں، وہ یہ کہ قومی سلامتی کے طویل المیعاد نقصان کی قیمت پر ہم مختصر مدت کے لیے خاموشی خرید کر رہے ہیں‘‘۔انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے استعفے کے بعد ان کی جماعت وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی قیادت میں مخلوط حکومت کو خیرباد کہہ دے گی۔اس کے بعد نیتن یاہو حکومت کی پارلیمان میں معمولی اکثریت رہ جائے گی۔
انھوں نے جنگ بندی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ’’ ہمیں جلد سے جلد نئے انتخابات کے لیے کسی تاریخ پر متفق ہوجانا چاہیے‘‘۔وزیراعظم نیتن یاہو نے جنگ بندی کو قبول کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’ہنگامی صورت حال میں دشمن سے پوشیدہ رکھی جانے والی ہر بات ہمیشہ عوام کے سامنے نہیں لائی جاسکتی‘‘۔
انھوں نے اسرائیل کے بانی لیڈر بن گورین کی برسی کے موقع پر منعقدہ تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا ’’ ہمارے دشمن نے جنگ بندی کی مانگ کی تھی اور وہ جانتے ہیں کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا تھا‘‘۔
جنگ بندی کے سمجھوتے پر نیتن یاہو کی حکومت میں شامل عہدے داروں کے علاوہ غزہ کی پٹی کے نزدیک رہنے والے یہودیوں نے بھی تنقید کی ہے اور انھوں نے غزہ کی حکمراں فلسطینی جماعت حماس کے خلاف مزید کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔