پولیس اب بہتر ہو جائے گی

Police

Police

تحریر : عقیل احمد خان لودھی

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرح ریاست کی پولیس بھی دہشت گردی اور باغیانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے موجودہ حالات میں آگے آگے ہے مختلف ترقی یافتہ ممالک افواج سے لئے جانے والے کاموں میں بھی اب پولیس سے مدد لینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں کیونکہ اندروانی حالات جب تک کمزور نہیں ہوتے بیرونی حملہ آوروں کو کامیابی آسانی سے نہیں ملا کرتی اور بیرونی طاقتیں ریاست کے اندر موجود باغی طاقتوں کی مدد سے ہی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتی ہیں ۔ انہی معاملات پر تحقیق کے بعد ترقی یافتہ ممالک نے اپنی پولیس کو زیادہ مضبوط بنانے پرزور دینا شروع کردیا ہے،پاکستان کے بڑے شہروں کراچی ، کوئٹہ اور سرحدی علاقوں سے اکثر عسکریت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں ان تنظیموں سے وابستہ عناصر یقینا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں پھر بگڑتے ہوئے معاملات میں رینجرز یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کوطلب کرنا پڑتا ہے ۔ جنوبی پنجاب کے علاقے راجن پور میں چھوٹو گینگ جیسے واقعات بھی ہمارے سامنے ہیں جہاں پولیس جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے۔

دیکھا جائے تو پاکستان کے تنظیمی ڈھانچوں میں پولیس ایک ایسا ادارہ ہے جس پر بھرپور توجہ نہیں دی گئی،مختلف سیاسی جماعتوں بالخصوص پی ایم ایل این اور پیپلز پارٹی نے اپنے ادوار میں پولیس کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا اقتدار کی باریوں میں سیاسی پارٹیوں نے اپنے منظور نظر افراد کو نوازنے کی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے محکمہ کا بیڑہ غرق کردیا۔ پیشہ وارانہ قابلیت کے حامل افسروں، اہلکاروںکی بجائے چرب زبان ، خوشامدیوں اور تابع فرمان حکمرانوں کی خوبیوں بارے بے جا قصیدے پڑھنے والوں کو ترجیح دی جاتی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کاغذوں میں کارکردگی سپر جبکہ عملی طور صفر ہوگئی۔ پولیس کا مورال ڈائون ہوا عوام اور پولیس کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے جنہیں نظر انداز کیا گیا ان میں سے بڑی تعداد بالآخر سستی اور کاہلی کا شکار ہوگئی۔شاہوں کو وفاداری اور افسروں کو اپنی تجربہ کاری کا یقین دلاتے ہوئے بعض شیر جوانوں کی جانب سے فرضی کاروائیوں کا سہار الیا جاتا رہا منیشات جیسی لعنت پر قیام پاکستان کے70برسوں بعد بھی قابو نہ پایا جاسکا اصل مجرموں کو چھوڑ کر ان کے کارندوں یا غریب لوگوں پر بھاری منشیات کے مقدمے بنا کر کارکردگی دکھائی جاتی رہی ، اپنا مدعا لیکر تھانوں میں جانے والے شریف شہریوں کیساتھ ہتک آمیز رویہ اپنا کر انہیں تھانوں سے دور کردیاگیا۔یوں ایک اہم ادارہ اپنی رعنائیوں کو برقرار نہ رکھ سکا ۔

ان تمام کوتاہ بینیوں کے باوجود یہ ایک ایسا ادارہ ہے جسے کسی ریاست میں امن وامان کے قیام کی ذمہ داریاں بہر صورت سرانجام دینا ہی ہیں۔ عوام الناس کے پاس اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، ناانصافیوں کے ازالے کیلئے بالآخر ا س ادارہ سے رجوع کرنے کے سوا کوئی چار ہ نہیں قانونی عملداری پر یقین رکھنے والے افراد امن پسند شہری کہلاتے ہیں اور امن پسند شہری قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہی مدد لیتے ہیں۔

شہریوں کی زمینوں پر ناجائز قبضے کرنے والے افراد بھی جعلی دستاویزات کا سہارا لینے کے علاوہ مقامی اہلکاروں اور افسروں کے تعاون سے اپنا دھندہ کرتے ہیں ناجائز قبضوں جیسی شکایات کی اگر سادہ طریقہ سے قرب وجوار سے بھی پوچھ گچھ کر لی جائے تو تمام معاملات واضح ہوجاتے ہیں مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ پولیس افسران تھانوں کی سطح پر آنے والی شکایات کا مناسب ازالہ اس وجہ سے بھی نہیں کرواتے رہے کہ قبضہ مافیا کو سیاسی شخصیات کی پشت پناہی حاصل تھی تھانوں میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے ایسی انکوائریاں اور ناجائز قبضے بروقت منطقی انجام تک نہیں پہنچ پاتے نتیجہ میں معاملات سنگینی اختیار کرتے، عدالتوں پر بوجھ پڑتا اور امن و امان کی صورتحال خراب ہوتی ہے وقت کا تقاضا ہے شہریوں کو ناجائز قبضوں سے چھٹکارے اور قانون شکن افراد کو شکنجے میںلانے کیلئے پولیس افسران کو اپنے تفتیشی معاملات میں خصوصی مہارت ہو کہ وہ عوامی شکایات پر جہاں زمینی حقائق اور زبانی واقعات کو دیکھتے ہیں وہیں جعلی دستاویزات کو پرکھنے پکڑنے میں بھی تجربہ کار ہوں اس مقصد کیلئے ماہرین کی مدد فراہم کی جائے۔

بات کی جائے گوجرانوالہ ریجن کی تو پنجاب کے 6 اضلاع گوجرانوالہ ، گجرات، منڈی بہائوالدین، حافظ آباد، نارووال، سیالکوٹ پر مشتمل ریجن آباد ی کے لحاظ سے بڑا علاقہ ہے جس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے اور اس ریجن کی پولیس جیسے ادارے میں کمانڈ ان دنوں 20ویں گریڈ کے افسر طارق عباس قریشی کو سونپی گئی ہے کراچی کیNID یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کے بعد سی ایس ایس امتحان پاس کر کے پولیس فورس جوائن کرنے والے طارق عباس قریشی قبل ازیں اسی ریجن میں بطور ڈی پی او گجرات اپنے فرائض سرانجام دے چکے ہیں اس لئے شہری ان کی خدمات اور طرز سروس سے بخوبی واقف ہیں ۔ طارق عباس قریشی آسڑیلیاکی یونیورسٹی سے کریمینالوجی میں ماسٹر ڈگری ہولڈربھی ہیں۔ حال ہی میں بطور آرپی او گوجرانوالہ پولیس کمان سنبھال کر ان دنوں پولیس اور عوام کے درمیان حائل فاصلوں کوختم کرنے کے لئے عملی طور پر میدان میںنظر آتے ہیں’ ناصرف شہری بلکہ پولیس اہلکار بھی ان کی بہترین خدمات کے مداح ہیں۔گوجرانوالہ، منڈی بہائو الدین ، گجرات میںلگائے گئے پولیس درباروں میں انہوں نے اہم اقدامات اٹھا کر پولیس اہلکاروں افسروں پر یہ بات واضح کردی ہے کہ ہم نے اپنی ذمہ داریوں سے احسن انداز میں عہدہ بر آ ہو کر عوام الناس کی خدمت کا فریضہ صحیح معنوں میں سرانجام دینا ہے ان کی تعیناتی پولیس جیسے ادارے کی بہتری کیلئے تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے ، آر پی او طارق عباس قریشی نے مختلف محکمانہ انکوائریوں میں الجھے ملازمین کے سروں پر لٹکتی سزائوں کی تلوا ر کو صوابدیدی اختیار سے ہٹاتے ہوئے انہیں اپنا آپ سنوارنے ، ادارے کو بہتر بنانے کا موقعہ دیا ہے۔

معاف کردینے جیسے خوبی آپ کی وسعت قلبی کی عمدہ مثال ہے برسوں سے انکوائریوں میں پھنسے ہوئے ملازمین اور افسران بڑے ذہنی بوجھ سے آزاد ہوئے ہیں۔طارق عباس قریشی نے ماتحت فورس کو ہدایت کی ہے کہ مظلوموں کی ترجیحی بنیادوں پرمدد کی جائے،دوران ڈیوٹی وردی کی عزت و تکریم کو مقدم رکھا جائے۔ لوگوں کے جان و مال کی حفاظت اور مظلوم کی دادرسی پولیس کی اولین ترجیح ہے، عوام کے ساتھ رویہ اچھا ہونا چاہئے، ہمارا بنیادی کام جرائم پر قابو پانا ہے،مقدمات کی تفتیش میرٹ اور سائنٹفک طریقہ سے کی جائے،کرپشن پر محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی یقینا آپ کی نظر میں پولیس کے کلرک حضرات بھی ہوں گے جن سے کام کرنے والے ملازمین اور افسروں کو ہمیشہ شکوہ ہی رہتا ہے۔ اب سب پولیس جوانوں اور افسران پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں خلق خدا کو انصاف کی فراہمی کیلئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کوپیش نظر رکھ کر اپنے حصے کا کردار ادا کریں سیاسی اثر ورسوخ سے آزاد ہو کر اپنے فرائض کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے سرانجام دیں ،ناجائز قبضوں اور دیگر جرائم میں ظالموں کے معاون بننے کی بجائے مظلوموں کا ساتھ دیں، تھانوں میں شریف شہریوں کیساتھ غیر انسانی رویوں اور اصل مجرموں کی بجائے چھوٹے کارندوں پر بھاری مقدار منشیات کے مقدمے درج کرنا ترک کرکے پولیس کی توانائیوں اور بجٹ کو ضائع ہونے سے بچائیں اس طرح اپنی دنیا اور عاقبت دونوں کو سنوارنے کا وسیلہ کریں۔

گوجرانوالہ میں قبل ازیں تعینات ہونے والے ریجنل پولیس افسران میں اظہر حسن ندیم، سلطان اعظم تیموری اور ڈی آئی جی اشفاق احمد خان کے نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے پولیس جیسے ادارے کے وقار میں اضافہ کیلئے پوری دلجمعی سے اقدامات اٹھائے اور آزادانہ تفتیش اور درکار وسائل میں آسانی پیدا کرکے انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ کیا جس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔آر پی او طارق عباس قریشی کے اقدامات کے بعد پولیس کے شیر جوانوں پر بھی لازم ہے کہ کمیونٹی پولیسنگ کی طرز پر عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے ہر ممکن اقدامات یقینی بنائیں۔ موجودہ حکومتی عہدیدار جن سے عوام الناس کو بڑی توقعات وابستہ ہیں جانتے ہیں کہ سیاسی عمل دخل میں الجھائی گئی ‘پولیس کو کھل کر کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا،حکومتوں کی نااہلی بھی اس شامل ہے جنہوں نے اس محکمے پر کوئی سرمایہ کاری نہیں کی اور نہ ہی قانونی عمل داری کو بہتر بنانے کے لیے کوئی جدید منصوبہ بندی کی ‘وہ بھی اب پولیس کو بے جا سیاسی اثر ورسوخ سے آزاد کرکے ہر طرح کی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنائیں پولیس افسران کی فلاح و بہبود کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائیں ہم اس بات پر قوی یقین رکھتے ہیں کہ اگر سیاسی حمایت اور مطلوبہ ذرائع میسر ہوں توہماری پولیس میں اتنی اہلیت ہے کہ و ہ ملک دہشت گردانہ، باغیانہ سرگرمیوں کی روک تھام ، انصاف کی فراہمی اور امن وامان کے قیام کے لئے 100فیصدنتائج مہیا کر سکتی ہے۔

Aqeel Ahmed Khan Lodhi

Aqeel Ahmed Khan Lodhi

تحریر : عقیل احمد خان لودھی