واشنگٹن (جیوڈیسک) آٹھ نومبر سے بھڑکنے والی اس آگ کو ‘کیمپ فائر’ کا نام دیا گیا ہے جس سے اب تک 63 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔
امریکہ کی مغربی ریاست کیلی فورنیا کے جنگلات میں بھڑکنے والی آگ کے سبب لاپتا ہونے والے افراد کی تعداد 600 سے تجاوز کرگئی ہے جب کہ متاثرہ عمارتوں سے لاشیں ملنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ریاست کے شمالی جنگلات میں لگی آگ کے باعث لاپتا افراد کی تعداد کا تعین ان ایمرجنسی کالز کے ذریعے لگایا گیا ہے جو مختلف علاقوں کے رہائشیوں نے آگ بھڑکنے کے فوری بعد مدد کے لیے امدادی اداروں کو کی تھیں۔
آٹھ نومبر سے بھڑکنے والی اس آگ کو ‘کیمپ فائر’ کا نام دیا گیا ہے جس سے اب تک 63 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے۔
ہلاک اور لاپتا ہونے والوں میں سے بیشتر ریٹائرڈ زندگی گزارنے والے معمر افراد ہیں جن کی اکثریت پیراڈائز نامی اس قصبے میں آباد تھی جسے آگ نے مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹادیا ہے۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق لگ بھگ 70 ہزار آبادی والے پیراڈائز اور اس کے نواحی علاقوں کے تقریباً تمام مکانات ہی آگ سے جل کر تباہ ہوچکے ہیں۔
آگ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بیوٹ کاؤنٹی کے شیرف کوری ہونی نے کہا ہے کہ لاپتا ہونے والے افراد کی تعداد میں کمی بیشی ہوسکتی ہے کیوں کہ لوگ اب بھی پولیس کو فون کرکے اپنے رشتے داروں کی گمشدگی یا ان کے مل جانے کی اطلاعات درج کرا رہے ہیں۔
حکام ‘کیمپ فائر’ کو کیلی فورنیا کی تاریخ کی بد ترین اور سب سے ہلاکت خیز آگ قرار دے چکے ہیں جس سے اب تک ایک لاکھ 41 ہزار ایکڑ رقبہ جل چکا ہے۔
ریاستی انتظامیہ کے مطابق ساڑھے پانچ ہزار فائر فائٹرز دن رات آگ بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جس پر اب تک صرف 40 فی صد ہی قابو پایا جاسکا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ آگ کو مکمل طور پر بجھانے میں مزید دو ہفتے لگیں گے۔
کیلی فورنیا کے فائر ڈپارٹمنٹ کے مطابق ‘کیمپ فائر’ سے اب تک 8650 گھر اور 260 کاروباری مراکز کو تباہ ہو چکے ہیں۔
لاپتا افراد کی تلاش اور سوختہ لاشوں کی برآمدگی کے لیے سیکڑوں اہلکار سراغ رساں کتوں کی مدد سے آگ سے متاثرہ آبادیوں میں دن رات کام کر رہے ہیں۔
آگ سے ہونے والی تباہی کا جائزہ لینے کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ہفتے کو کیلی فورنیا پہنچ رہے ہیں جہاں وہ حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ متاثرین سے بھی ملاقات کریں گے۔