خوشیاں منائو، حضورۖ آ گئے

 Eid Milad-un-Nabi

Eid Milad-un-Nabi

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور

انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ حصولِ نعمت پر اظہارِ مسرت کرتا جبکہ زوالِ نعمت پر غمگین ہوتا ہے۔آسانی میں خوشی اور تکلیف میں غم کا پیدا ہونا فطری عمل اورانسانی جبلت و طبیعت کا لازمی جز ہیں۔حصول نعمت یعنی خوشحالی اورزوال نعمت سے مرادہے تنگدستی۔ خوشحالی اور تنگدستی ،خوشی بھری زندگی اور مشکلات میں پسی سسکتی زندگی کے درمیان صدیوں کے فاصلے ہونے کے باوجود ایک چیزمشترک ہے۔انسان حصول اورزوال نعمت دونوں حالتوں کے اندرطالب رحمت رہتا ہے یعنی اللہ تعالی کی رحمت نہ ہوتوخوشحالی بھی تکلیف دہ ہوسکتی جبکہ تنگدستی کی حالت میں رحمت الٰہی کاساتھ ہوتو زندگی باغ وبہارہوجاتی ہے۔اللہ سبحان تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کو بیشمارنعمتوں سے نوازاہے جن کا احاطہ کرنا انسان یاکسی اورمخلوق کیلئے ممکن نہیں۔ اللہ سبحان تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشادِ فرمایا ” اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتیں شمار کرنے لگو تو انھیں گن نہیں سکتے”ایک اورمقام پرسورة الرحمٰن کے اندر ارشادفرمایا”تو اے جن و انس! تم دونوں اپنے رب کی کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے”اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتوں کے نزول کے بعد بھی مخلوق جس چیزکی طالب رہی اسے ہم رحمت کہتے ہیں۔

بیشمار نعمتوں کی موجودگی کے باوجودخالق ومالک کی رحمت شامل حال نہ ہو توبات نہیں بنتی۔ہمارے لئے قابل غوروفکر بات یہ ہے کہ جومخلوق اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمارنہیں کرسکتی وہ مالک کی رحمت کی پہچان یاتلاش کیسے کرپاتی؟بیشک اللہ تعالیٰ ہی رحمت فرمانے پرقدرت رکھتا ہے،یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ بیشک انسان نعمتوں کوشمارنہیں کرسکتاپھربھی دستیاب نعمتوں کواپنی زبان میں پکارتااورپہچانتاہے،اُن کے ذائقے، خوشبو اوردیگرفوائدسے واقف ہے ،ہزاروں نعمتوں کی موجودگی میں خوشحال حالات کے باوجودجس چیزکی طلب باقی رہتی ہے وہ ہے رحمت ،اب انسان یہ فیصلہ کیسے کرئے گاکہ رحمت کیاچیزہے؟نعمتیں ہم کھاتے،پیتے،پہنتے ہیں۔تمام نعمتیں جس جسم وجان کے کام آتی ہیں وہ خودبھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں شمارہوتے ہیں۔اس بات کافیصلہ اوراعلان اللہ تعالیٰ نہ فرماتاکہ رحمت کیاہے تومخلوق کی بیتابی کبھی ختم نہ ہوپاتی،رحمت کی طلب پوری ہوناتودورکی بات تھی پہچان ہی نہ ہوپاتی،بیشک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پرمہربانی فرماتاہے۔خوشحال ہویاتنگ دست کوئی بھی انسان اللہ سبحان تعالیٰ کی نعمت کے حصول پرناخوش یاغمگین نہیں ہوتاتوپھرکیسے ممکن ہے کہ کوئی رب رحمٰن کی جانب سے عظیم رحمت حاصل ہونے پرخوشی نہ منائے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندرنبی کریم ۖکومخاطب کرکے ارشاد فرمایا”اور (اے رسولِ محتشم) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر”(الانبیائ21: 107)تمام جہانوں کامطلب کہ ہم انسان جن مخلوقات سے واقف نہیں جن مقامات تک ہماری رسائی ممکن نہیں میرے اورآپ کے آقاحضرت محمدۖکواللہ سبحان تعالیٰ نے اُن مخلوقات اورمقامات کیلئے بھی رحمت بنایاہے۔میرے مطالعے اور علم کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آپ سرکارۖ کے علاوہ کہیں کسی کورحمت کالقب نہیں دیااور قربان جائوں اپنے کریم آقاوحادی ۖ کی شان وشوکت کے جن کورب رحمٰن نے تمام جہانوں کیلئے رحمت بنایا۔الحمدللہ ہماراشماربھی اللہ تعالیٰ کے جہانوں میں شامل ہے، اُن مخلوقات میں شامل ہے جواللہ سبحان تعالیٰ کی رحمت یعنی اپنے پیارے نبی کریم ۖکی آمد،سرکاردوعالم کی ولادت باسعادت کی خوشی مناتے اوراپنے رب تعالیٰ کاشکراداکرتے ہیں۔

سرکار دوعالم ۖ نے بیٹی کوباعث رحمت فرمایا،ماں،بہن اوربیوی سمیت دنیاکی تمام خواتین کی عزت واحترام کے احکامات فرماکرعورت کومعاشرے میں ایسامقام ومرتبہ عنایت فریاجس کاتصوربھی ممکن نہ تھا۔ایسے کریم آقاۖ کہ نہ صرف انسانوں بلکہ جنات،جانوروں،درختوں،پرندوں اورکیڑوں مکوڑوں سمیت کائنات کی تمام مخلوقات کی فلاح و بقاء کادرس فرمایاہے۔ قارئین آپ جانتے ہیں کہ جب ہم اپنے عزیزواقارب،بہن بھائی اوربچوں کایوم ولادت یعنی سالگرہ مناتے ہیں توہمارے دل کوخوشی ملتی ہے۔مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے مختلف طریقوں سے خوشی مناتے اورخوشی کااظہارکرتے ہیں،اب یہ فیصلہ کرناضروری ہے کہ رسول اللہ ۖ کے یوم ولادت باسعادت کی خوشی منانے کاطریقہ کیاہوناچاہئے؟اس سوال کے جواب کیلئے کسی ایسی ہستی کی رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے جو نہ صرف ہمارے لئے قابل اعتمادواحترام ہوبلکہ اللہ تعالیٰ،رسول اللہ ۖ کی بارگاہ میں مقبول ومنظوربھی ہو۔مرشِدسرکارعظیم روحانی پیشواسیدعرفان احمد شاہ المعروف نانگامست بابامعراجدین فرماتے ہیں”ربیع الاول بڑا برکتوں والا مہینہ ہے، اس ماہ مبارک میں رحمتیں اور برکتیںآئی ہیں، انسان یعنی مرد و عورت کی قدر و قیمت کاپتاچلا، الحمدللہ ربیع الاول خوشی سے منانا چاہیے۔

جب بچہ پیدا ہوتا ہے تواس کی سالگرہ منائی جاتی ہے خوش ہوا جاتا ہے۔ یہ سب کو علم ہے کہ دنیا چھوڑ کے چلے جاناہے، جب بچہ پیدا ہو تاہے توشریعت کے مطابق سب سے پہلے اس کا عقیقہ کیا جاتا ہے بیٹا پیداہوتو دو بکرے ذبح کئے جاتے ہیں اور بیٹی ہو تو ایک بکرا ذبح کرنے کاحکم ہے،کیونکہ اللہ سبحان تعالیٰ،رسول اللہۖ کا حکم ہے یہ خوشی کی نشانی ہے تو جو بھی پیدا ہوتا اس نے دنیا چھوڑ کے جانی ہوتی ہے، پہلے خوشی منانے کا حکم ہے باقی معاملے بعد میں،خوشی مسلسل رہتی ہے جبکہ افسوس تین دن کیا جاتاہے ،جب ہمارے عزیز،عقیدت مند ہماری سالگرہ کی خوشی مناتے ہیں،کوئی بکرے ذبح کرتاہے،کوئی لنگرتقسیم کرتاہے توہم اورہماے فیملی والے خوش ہوتے ہیں۔جب ہم رسول اللہ ۖ کے یوم ولادت پر خوشی مناتے ہیں اللہ سبحان تعالیٰ خوش ہوتاہے،جب اللہ تبارک تعالیٰ و رسول اللہ ۖ خوش ہوتے ہیں تو کائنات کی ہر مخلوق خوش ہوتی ہے۔

تمام انبیاء کرام خوش ہوتے ہیں،اللہ تعالیٰ کے فرشتے خوش ہوتے ہیں،ہمیں یہ خوشی منانی چاہیے، مسلمان ربیع الاول کے مہینے میں خوب خوشی منائیں،لنگرکھائیں،کھلائیں،فرض نمازوں کے ساتھ نوافل اداکریں،قرآن مجید کی تلاوت کریں،پیارے نبی کریم ۖ پرخوب خوب دروداسلام بھیجیں،اس بات کاخیال رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حلال و طیب رزق کھانے اورکھلانے کاحکم فرمایاہے،حلال وطیب لنگربنانے والانمازی ہو،کھلانے والانمازی اورباوضوہوتواللہ پاک بڑی رحمت فرماتاہے،بڑافضل فرماتا ہے، خیال رکھیں خوشی منانے کاکوئی بھی ایساطریقہ جودوسروں کیلئے مشکلات پیداکرے یا معاشرے میں بگاڑپیداکرنے کاسبب بنے اس سے اللہ تعالیٰ اور،رسول اللہۖ نے سختی سے منع فرمایا، کسی کے ساتھ مت الجھیں،دوسروں کیلئے آسیانیاں پیداکرنے کی کوشش کریں اوراپنے آقاکریم ۖکے یوم ولادت باسعادت کی خوب خوب خوشیاں منائیں، آمد مصطفے،مرحبا،مرحبا،سرکارکی آمد مرحبا،مرحبا

Imtiaz ali shakir

Imtiaz ali shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com.
03134237099