حال ہی میں پا کستان جانا ہوا اللہ اکبر ایک اعلیٰ پائے کے سکول کے طالبعلم کو جب باتھ روم سے بغیر ہاتھ دھوئے نکلتے دیکھا تو ملائمت سے کہا کہ آپ ھاتھ دھونا بھول گئے ہیں شائد خجالت سے اس نے واپس مُڑٹے ہوئے ہاتھ دھوئے اسے کہا کلمہ پڑھا ؟ مجھے تو نہیں آتا استغفراللہ ایک جھٹکا تھا جو میرے پورے وجود کو لرزا گیا کیا سکول میں اسلامیات نہیں پڑہاتے پڑہاتے ہیں لاپرواہی سے جواب ملا مگر ہمیں ایسا کچھ نہیں بتایا جاتا اتفاق سے مجھے سسٹر کے ساتھ ایسے ہی ایک سکول میں جانے کا اتفاق ہوا میری نگاہیں اس تعلیمی اعلیٰ درسگاہ کا طائرانہ جائزہ لے رہی تھیں ناگہاں سامنے سے پندرہ سولہ سال کے دو بچے ایک لڑکا ایک لڑکی آتے دکھائی دیے کم چوڑائی والی ایک راہداری سی بنائی گئی تھی جہاں ایک وقت میں دو لوگ ہی آسانی سے گزر سکتے ہوں گے دوپٹے سے بے نیاز یہ بچی اپنے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے ہم عمر بچے کے ساتھ خوش گپیاں کرتی ہوئی دور سے آتے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے میرے قریب سے گزر گئی میری آنکھوں میں فرانس گھوم گیا مجھے لمحہ بھر کو نہیں محسوس ہوا کہ میں اسلامی ریاست پاکستان میں ہوں اپنی کزن سے بات کی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ پاکستان وہ بھی گوجرانوالہ اتنا بدل سکتا ہے؟ کہنے کی دیر تھی اس نے اپنے بیٹے کے سکول کی وڈیو دکھائیں اللہ اکبر جدید ملبوسات میں ملبوس بچیاں اور بچے مغربی طرز معاشرت کا شاہکار ڈانس کر رہے تھے وہ بھی “”کپل ڈانس “” یہ کیا ہے ؟ یہاں تو یہی ہے بھئی اکتوبر کا مہینہ تھا بازاروں میں شاپنگ مالز میں ھالوین کیلئے بالکل ویسے ہی تیاریاں دیکھیں موجودہ انہی اداروں سے تیار نسل اپنی اولاد کو خود سے آگے دیکھنا چاہتی ہے ان کی سوچ ہے کہ دنیا گلوبل ویلج ہے اس کے ساتھ چلنے کیلئے بچوں کو ہر بین القوامی ایونٹ کا ادراک ہونا چاہیے اردو کی اب گنجائش نہیں ٌ سوائےدادا دادی کے ساتھ رابطے کے اردو کی بنیاد ہٹا کر اب مغربی طرز تعمیر کی شاہکار بے دین عمارت قائم کرنا بہت آسان ہو گیا گلوبل ویلج کا تصور یہی تو تھا تیسری دنیا کے ممالک میں آرائشی اشیاء کی بھرمار کر کے انہیں مومن کے تصور سے آسانی سے ہٹایا جائے قرآن کا ترجمہ بتاتا ہے کہ مومن کے لئے دنیا عارضی قیامگاہ ہے اور آخرت کا متمنی مومن اس دنیا کی آرائش و زیبائش سے دامن بچا کر متقی کی زندگی گزارتا ہے تا کہ اپنے خالق کے لازوال انعامات سے لطف اندوز ہو سکے اس مومن کو گمراہ کرنے کیلئے بڑی مہارت سے زندگی فریب نظر بنا دی گئی ہم وطنوں کو منافع روپے سے ڈالرز یورو میں ملنے لگا تو شیطان کا وار کام کر گیا ٌ کہاں کا دین کیسی کوئی حد کوئی قید ؟ قناعت رخصت ہوئی پیسے کا لالچ اللہ سے نبی ﷺ سے دور اور دور لے گیا یوں نہ تلوار اٹھی نہ تیر چلے اور امت شیطانی فائدے اٹھاتی گئی اور آسانی سے مغلوب ہوتی گئی نمازیں ختم ہوئیں تو شیطان کی فتح یقینی ہو گئی اپنے منصب امت وسط کے فرائض سے دور کل کی کامیاب امت کو رنگ و بو میں ڈبو کر کھوکھلا نمائشی دین تھما دیا یہی کافی ہے تمہارے لئے اور ہم بلا چوں چراں کئے اپنی وراثت سے دستبردار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جیسے بنی اسرائیل کی مسلسل نافرمانیوں کی وجہ سے ان سے نمائیندگی کا منصب چھین لیا گیا تھا اہل وطن جاگو ہماری طاقت ہمارے اسلاف کی شاندار لاجواب تاریخ میں پنہاں ہے ہمیں تو ابو بکر صدیق عمر بن خطاب علی کرم اللہ وجہہ عثمان غنی پھر ان کے نقش قدم پر چلنے والے تاریخی نام خالد بن ولید طارق بن زیاد محمد بن قاسم دیے گئے تھے ہمارے امام جن کے جسم کوڑے کھا کھا کر بھی حق پر ڈٹے رہے ان کی تعلیم نے اسلام کو زندہ رکھا بڑے بڑے امام فقہاء زندگیاں تج کر گئے اسلام بچا گئے اور آج کس بیدردی سے ہم اپنے ہاتھوں ہی اسلام کا پرچم سرنگوں کئے جا رہے ہیں؟ ایسے تعلیمی مدارس ہماری ضرورت نہیں ہیں جو ہمیں حق سے دور مفاہمتی پالیسی کیلئے تیار کریں ایسے سکول دراصل شیطانی طاقتوں کا کھیل ہے جو طاغوتی زہر کو رنگین پنی میں ملفوف کر کے ہماری سادگی سے کھیل رہے ہیں دنیا کی ترقی کے متمنی سادہ لوح امیر والدین ایسے سکول کو اسٹیسٹس سمبل سمجھتے ہیں جب کامیاب کاروباری حضرات فخر سے مہنگے سکولوں میں پڑہتے بچوں کا ذکر کرتے ہیں تو دراصل وہ فخر سے اپنی ذہنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اگر جانتے کہ ان کے بچے تعلیمی نصاب میں اپنے اصل سے دور جا رہے ہیں تو یقینا وہ خاموش رہتے کشمیر ہے یا فلسطین ان کے مسائل آج تک کیوں حل نہیں ہوئے پیچھے ایسی ہی مفاہمتی سوچ ہے جو مکمل مسلمان غیور نہیں ہیں ایسی ہی نسل کل کو پاکستان میں بھی مسئلہ کشمیر کو نجانے کس طرح پکارے گی دنیا کو جہالت سے گمراہی سے نکال کر علم کا نور ہدایت کی پاکیزگی زندگی میں شامل کرنےو الے قرآن اور نبیﷺ کا نام محض عید میلاد یا نماز عیدین یا جمعہ تک رہ جائے گا غزوے جھاد سے اسلام کو مستحکم کرنے والے اب ماؤس کمپیوٹر تک محدود ہو گئے ایسے مضبوط رہنماؤں کی وراثت کے امین آج کیا سے کیا بن گئے ؟ نہ جسم مضبوط کہ اللہ کے دین کیلئے نکل کھڑے ہوں نہ سوچ طاقتور کہ کسی کو راہ راست پر لا سکیں نہ عمل ایسے کہ کوئی متاثر ہو کر ان کی پیروی کرے اللہ کا نام اور اسکے احیاء کی کوشش آج ان کے نزدیک وقت کا ضیاع ہے اور یہی وجہ ہے سب کچھ ہے اس ملک میں برکت اٹھتی جا رہی ہے اسلام کو زندگی سے نکال کر رسمی دین صرف نمائش کیلئے مخصوص کر دیا جہاں دین ختم کیا جائے ایسی قومیں ایسے علاقے ایسی بستیاں کیسے اوندھے منہ زمین پر ماری جاتی ہیں عبرت لینی ہو تو آج بھی قرآن کھول لو ہوش ٹھکانے آ جائے گی یہ رنگ و مستی کا خمار سب بے رنگ نہ ہو جائے تو کہنا شیطانی قوتوں نے لالچی اور بے دین نا عاقبت اندیش حکمرانوں کی دینی جہالت کا ہر دور میں فائدہ اٹھایاگیا بڑے اطمینان سے ہمارے ملک کی سادگی کو جہالت کہ کر اٹھا کر باہر پھینک دیا عورت کو بڑے تزک و اہتشام سے باہر نکالا اور یوں معاشرت ہی تبدیل کر کے رکھ دی
عورت جب باہر نکلی تو گھر کا نظام تلپٹ ہوا دین سے مکمل متصادم نظام جو حرص و لالچ پر مبنی ہے جس کی اسلام میں کہیں کوئی گنجائش نہیں ہے صرف کاروباری فوائد کیلئے بین القوامی منڈی نے لوکل سسٹم بنائے اور عورت کا گھر سے باہر نکلنا معاشی ترقی سے مربوط کر دیا گیا اسلام قناعت پسندی کا سبق سکھاتا ہے خواہشات محدود اور توجہ گھر داری اور اولاد پر ملک میں بغیر شعور کے ٹریننگ کے غیر ملکی آسائشات کی بھرمار کر دی گئی ہم جیسے ترسے ہوئے ٹوٹ کر پِل پڑے ان آسائشات پر اصل شیطان اربوں کھربوں سمیٹنے لگے اور ہمارے اپنے ہم وطن ہزاروں میں ہی پھول گئے بھول گئے کہ اس منا فع نے کیا قیمتی نقصان کردیا قوم کا امت کا باہر والوں کا ایمان اور دین یہی روپیہ ہے ہمیں کیا ہوگیا ؟ ہم اتنے کمزور نفس کے کیسے بن گئے؟ ہم نے بڑی سہولت سے اپنا قیمتی دین اپنی کامیاب زندگی کیلئے موجود تاریخی عظیم کتاب لپیٹ کر جزدانوں میں الماریوں کے بہت اوپر ادب سے تعظیم سے سجا دی اور صم بکم عم بنے اپنے حصے کا محدود فائدہ اٹھا کر قیمتی نسلوں کا نقصان کر بیٹھے جاگو اہل وطن تمہاری نسلوں کو دیا جا رہا ہے طاغوتی زہر رنگین پنی میں