جب تک کوئی شخص انسانی نفسیات کا کما حقہ ادراک نہیں رکھتا وہ انسانی اعمال کی کہنہ و حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہو تا ہے۔انسان کائنات کے اندر پھیلے ہوئے رموز و اسرار کو اسی وقت سمجھ سکے گا جب وہ انسانی نفسیات کی پچیدہ گتھیاں سلجھانے کے اہل ہوگا ۔گویا کہ انسانی اعمال کامتنوع اور حیرہ کن ہونا علمِ نفسیات سے جڑا ہواہے ۔یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ربِ ذولجلال کا تخلیق کردہ پیکرِ خاکی ہر روزنئی نئی جہتوں سے ہمکنار ہو تا ہے اور اس میں عمل کا جوہر مشاہدے،تجربات اور عقائد سے نئی راہیں تراشتا رہتاہے ۔جو کچھ اس نے گزرے ہوئے کل میں کیا تھا ضروری نہیں ہوتا کہ وہ آنے والے کل میں بھی ویسے ہی اعمال کا سزاوار ہو ۔اعمال کی یک رنگی کی توقع رکھناجامد سوچ کی عکاسی کرتا ہے لیکن انسان کوئی پتھر یا منجمد شاہکار نہیں ہے بلکہ یہ تو ہر آن نئی منزلوں سے ہمکنار ہونے والا ایسا شاہکار ہے جس کے اندر رب نے اپنی روح پھونک کر اسے استخلاف ِ فی الارض سے ہمکنار کیاہے ۔سچ تو یہ ہے کہ انسان کے اندر آزدانہ فیصلہ کرنے کی قدرت ہی اسے دوسری مخلوقات سے ممیز کرتی ہے۔
تاریخ کے اوراق پر رقم شدہ انمٹ سچائیوں کو جاننے کے باوجود بھی انسان اپنے لئے نئی راہیں خود تراشنے کا خطرہ مول لیتا ہے کیونکہ آزادانہ فیصلوں کی اسی خوبی کی بدولت تو فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم جاری ہوا تھا۔یاد رکھو انسان مجبورِ محض نہیں جو ایک ہی بات کو دہراتا چلا جائے بلکہ یہ ہر آن بدلتا ہوا نادر شاہکار ہے اور بدلائو کی یہی خوبی انسانی ارتقاء کی بنیاد ہے۔ اپنے نظریات میں تبدیلی کے اسی عنصر نے اس کے اندر سچائی کے ادراک کا ایسا بیج بویا جس نے اسے نئی منزلوں کا راہی بنا دیا ۔اس کی نئی کیفیت اس کے کئی ہم عصروں کو بآسانی ہضم نہیں ہوتی کیونکہ وہ اس کی نئی کیفیت کو دل سے قبول کرنے سے عاری ہوتے ہیں۔
کوئی بھی شخص کسی انسان کی بدلی ہوئی نئی کیفیت کو کیسے تسلیم کر سکتا ہے جبکہ وہ اسے روزانہ بے عملی،وعدہ خلافی ،بد اعمالیوں اور حر ص و ہوس کی دلدل میں لتھڑا ہوا دیکھتا ہے؟در اصل وہ اسے گزرے ہوئے کل میں تلاش کرنے کی سعیِ لا حاصل کرتا ہے حالانکہ وہ مخصوص انسان اپنے گزرے ہوئے کل کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہو تا ہے لیکن کسی کو اس کا ادراک نہیں ہو پاتا۔لوگ اسے پہچاننے میں شدید غلطی کر جاتے ہیں کیونکہ اسے گزرے کل کی میزان میں تولنے کی لا حاصل مشق کی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی شخصیت کا احاطہ مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ اب اس میں گزرا کل تو کہیں موجود ہی نہیں ہوتا اور جو چیز موجود ہی نہ ہو اسے تولااور پرکھا کیسے جا سکتا ہے ؟ اگر بدلائو کی حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر سارا منظر بالکل واضح ہو جاتا ہے جسے ہر کوئی بآسانی پڑھ سکتا ہے ۔در اصل بدلائو کاتعلق انسان کی روح سے متعلقہ ہوتا ہے اور انسان کی روح کو نہ تو پڑھا ،دیکھااورسمجھا جا سکتا ہے بلکہ یہ ایک غیر مرئی کیفیت ہو تی ہے جس پر بس ایمان لا یا جاسکتا ہے۔جب کسی بھی انسان کا سار ا ماضی ہمارے سامنے ہو اور اس کے اعمال و کردار کے ہم عینی شاہد ہوں تو پھر ہم اس کی نئی کیفیت کو کیسے تسلیم کر سکتے ہیں ؟ انسان ہمالہ کی چوٹی تک پہنچ چکا ہو تا ہے لیکن ہم اسے پھر بھی پاتال میں تلاش کر رہے ہو تے ہیں وہ محض اس لئے کہ ہم اسے ماضی کے خول سے نکالنے کی سعی نہیں کرتے ۔ جس کو میری بات میں شک ہو وہ گلوکار جنید جمشید کی مثا ل سامنے رکھ لے ۔علامہ اقبال نے اس کیفیت کو ایک شعر میں سمو کر رکھ دیا ہے ۔سنئے اور وجد میں آ جائیے(تو اسے پیمانہِ امروز و فردا سے نہ ماپ۔ جاوداں ، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی )
انسان قدرت کا عجیب و غریب شاہکار ہے ۔یہ نا مساعد حالات، مشکلات اور آزماشوں میں ایسا حیران کن ردِ عمل دے دیتا ہے جس کی اس سے بالکل توقع نہیں ہوتی ۔کسے علم تھا کہ نازو نعم میں پلا ہوا ذولفقار علی بھٹو جنرل ضیا الحق کی فسطائیت کے سامنے کوہِ گران بن کر کھڑا ہو جائیگا؟اور وہ ایک ایسے پہاڑ کا روپ اختیار کر لے گا جسے مارشل لاء کی ساری قوت بھی اپنی جگہ سے ہلا نہ پائیگی ؟کیسی کیسی سختیاں تھیں جو اس کے ساتھ روا نہ رکھی گئی تھیں اور کیسے کیسے ظلم تھے جو اس پر ڈھائے نہ گئے تھے لیکن اپنے وقت کا یہ بلند و بالا پہاڑ پھر بھی اپنی جگہ سے ہلایا نہ جا سکا ۔تاریخ میں اس کی استقامت ضرب المثل بن چکی ہے ۔میری ذاتی رائے ہے کہ اس کے خلاف جیسے جیسے سختیاں بڑھتی گئیں اس کا عزم بھی اسی طرح بلند ہو تا گیا۔ اگر میں یہ کہوں کہ سختیوں کے زہر نے ذولفقار علی بھٹو کو نئی عظمت اور بلندی عطا کی تھی تو بے جا نہ ہو گا۔گویا کہ جبریت کا زہر اس کیلئے امرت دھارا ثابت ہوا تھا۔انسان وقت کے تقاضوں کے ساتھ اپنی نئی حیثیت اور جگہ کا تعین کرتا چلا جاتا ہے۔
کینہ پرور ، عصبیت زدہ ،تنگ نظراور رجعت پسند لوگ اس کا ادراک نہیں کر پاتے بلکہ وہ اسے اپنے مخالف کی شکست سمجھ کر اس سے لطف اندوز ہو تے ہیں حالانکہ اس شخص کیلئے فتح وشکست کامروجہ تصور بدل چکا ہو تا ہے۔جسے فتح سمجھ کر لوگ خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں وہ اسے شکست سے تعبیر کرتا ہے۔اس وقت اس کی بات کی سمجھ نہیں آتی لیکن چند سالوں کے بعد وہ معتوب شخص تاریخ کا ہیرو بن کر سامنے آ تا ہے ۔اکثر انسانوں کی نظر چونکہ مفادات ِعاجلہ پر ہوتی ہے اس لئے وہ آنے والے کل کو دیکھنے سے عاری ہوتے ہیں۔وہ آج میں زندہ ہوتے ہیں لہذا ان کیلئے کل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ علامہ اقبال نے خود کو آنے والے زمانوں کا شاعر کہا تھا تو محض اس لئے کہ لمحہِ موجود نے مٹ جانا ہو تاہے زندہ اسی نے رہنا ہوتاہے جس کی نظر آنے والے کل پر ہو گی۔سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف جھنوں نے دولت ، شہرت ، عزت اور اقتدار کے سارے روپ دیکھ رکھے ہیں وہ اب آنے والے کل میں زندہ رہنے کے نظارہ کو دیکھنے کے متمنی ہیں۔
وہ شائد ا پنے ناقدین کی نظر میں کمزور انسان ہو ں اور ان میں استقامت کا مادہ بھی کم ہو لیکن اس کا فیصلہ بھی آنے والا کل ہی کریگا ۔ ؟ انھوں نے جس طرح نیب سے سزا یافتہ ہونے کے بعد خود کو قانون کے حوالے کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام کر زندانوں کی تاریکیوں کو سینے سے لگاناجان جو کھوں کا کام تھا لیکن وہ اس سے قطعا نہیں گھبرائے۔لندن سے پاکستان تک کا سفر اب ایک نئے انسان کا سفر تھا جو نفع و نقصان سے بالا تر ہو چکاتھا۔اب اس کی نظر حصولِ اقتدار پر نہیں بلکہ ادرشوں پر تھی،اصولوں پر تھی، نظریات پر تھی، اجلتا پر تھی اور کمٹمنٹ پر تھی۔اب وہ جیت ہار کے فلسفے سے کوسوں دور نکل گیا تھا۔اس کا ماضی قابل ِ رشک نہیں تھا،اس کا ماضی درخشاں نہیں تھا، اس کا ماضی قابلِ فخر نہیں تھا ، اس کا ماضی اصول پرستی سے خالی تھا بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ اس کا ماضی اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے اور ان کے خلاف سازشیں کرنے کی کاریگری پر مشتمل تھا تو بے جا نہیں ہو گا۔
جب اقتدار منزل بن جائے تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے اصول مٹ جاتے ہیں،ادرش کمزور ہو جاتے ہیں،اصول پرستی دم توڑ جاتی ہے اور انسان حصولِ اقتدار کی خواہش میں کہیں کا کہیں نکل جاتا ہے ۔تین دفعہ وزیرِ اعظم کا اعزاز پانے کے بعد بھی انسان اقتدار کا بھوکا نکلے تو سمجھ لو اس کی ساری حیاتی بے کار گزری ہے۔اقتدار تو مٹ جانے والی شہ ہے لہذا انسان مٹ جانے والی شہ کا حریص کیوں بنے؟ صرف انسان کا کردار باقی رہتا ہے اور اسی کا تذکرہ ہونا ہے ۔مٹی کا پیکر بھی کردار کی اجلی مٹی سے تاریخ میں زندہ و جاوید ہوتا ہے ۔ جس کی مٹی میں کردار کی رمق نہیں ہوتی اس کا مٹ جانا اٹل ہوتا ہے۔
انسانوں پر ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب وہ اقتدار کا نہیں بلکہ سچائی کی خاطرڈ ٹ جا تاہے۔ لو گوں کیلئے ایسی نئی کیفیت کو تسلیم کرنا مشکل ہو تا ہے کیونکہ انھوں نے جس انسان کو دیکھا تھا اس کی حیاتی آمروں کی قدم بوسی سے مزین تھی ۔ نیب فیصلے کے بعد بھی اسی طرح کی توقعات وابستہ کی گئی تھیں کہ نازو نعم کا پیکر جیل کی سختیوں کے سامنے ڈھیر ہو کر رحم کی بھیک مانگے گا لیکن ایسا کرنے کی بجائے اس نے جیل کی تاریکیوں کا انتخاب کر کے سب کو مات دے دی ۔اقبال نے شائد اسی پیرائے میں کہا تھا (پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانوں سے )انسان کوزنجیروں میں جکڑا جا سکتا ہے ،اسے ہتھکڑ یاں لگائی جا سکتی ہیں،اسے ننگے فرش پر سونے کیلئے مجبور کیا جا سکتا ہے لیکن وہ انسان جس کی قلبی کیفیت بدل چکی ہواسے ڈرا یا نہیں جا سکتا۔،
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال