گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے یوٹرن کے حوالے سے ایک عجیب و غریب بات کی جس نے ایک نئ بحث کا آغاز کر دیا۔ یوٹرن کی ایسی تشریع کی کہ جو پاکستان سمیت ساری دنیا کے لئے عجیب تھی۔ بات تشریع تک محدود رہتی تو الگ تھی مگر انہوں نے دنیا کے بڑے بڑے راہنماؤں کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ اگر انہوں نے کبھی یوٹرن نہی لیا تو وہ کبھی بھی دنیا کے بڑے لیڈرز نہی بن سکتے۔ ان کے اس بیان کے ساتھ ان کے چیلے چپاٹے ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے جب انہوں نے نبیوں اور پیغمبروں کے یوٹرن کے حوالے سے دلائل دینے شروع کر دیا۔ عجیب عجیب اور بھونڈی تاویلوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
عمران خان کے حوالے سے حزب اختلاف کی جماعتیں ان کو مسٹر یوٹرن کہتی ہیں اور انہوں نے اپنی اس عادت کو اپنا جواز بنا کر پیش کردیا۔ اس کے ساتھ ہی ہمارا میڈیا بھی تقسیم ہو گیا جو تو خان صاحب کو سپورٹ کرتے ہیں وہ یوٹرن کے حق میں اور باقی اس پر تنقید میں مصروف ہو گئے۔ ایک تجزیہ نگار جو کہ سابق بیروکریٹ بھی ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ وہ بھی دانشور کہلاتے ہیں۔ خان صاحب کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ایک لیڈر قوم کو لیکر منزل کی جانب چلتا ہے اور راستے میں دیوار آگئ تو کیا وہ دیوار سے سر ٹکرائے گا،ظاہر ہے وہ یوٹرن لے گا۔ ان کو یوٹرن کا مطلب ہی معلوم نہی ہے۔ اس حالت میں بھی وہ دائیں یا بائیں جانب سے نکلنے کا راستہ تلاش کرے گا یا دیوار میں سوراخ کر کے رستہ بنائے گا نہ کہ یوٹرن لے کر واپس لوٹ جائے گا۔ کیونکہ یوٹرن کا مطلب واپس مڑنا ہے۔
حضرت موسی جب بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے لیکر نکلے تو رستے میں سمندر تھا پیچھے فوج تھی اگر موسی یوٹرن لیتا تو اس وقت کی سُپر پاورفوج نہتے اسرائیلوں کا کیا حشر کرتی مگر حضرت موسی نے بجائے یو ٹرن لینے کے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور اس میں خدا تعالیٰ نے ان کی مدد کی اور پانی میں رستہ بنا دیا۔ حضرت محمد اگر یوٹرن لیتے تو بہت سی جنگوں سے بچا جا سکتا تھا مگرحق کے حصول کے لئے انہوں نے یوٹرن لینے سے انکار کیا۔ خان صاحب اگر یوٹرن کے بجائے لچک کی اصتلاح استمال کرتے تو اچھا ہوتا میرے نزدیک یوٹرن میں اور زیرو میں یعنی صفر میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ شکر اور مٹھاس میں فرق ہے یعنی شکر میٹھی ہوتی ہے یہ ہم جانتے ہیں مگر اس کی مٹھاس کا اندازہ اسے چکھنے کے بعد ہی آتا ہے۔ اسی طرح یوٹرن دراصل 360 ڈگری پر واپس مُڑ جانے کو کہتے ہیں۔ اور اگر آپ ایک بار یوٹرن لیتے ہیں تو معاف کیا جاسکتا ہے مگر آپ کے بار بار یوٹرن لینے کو دائرے میں گھومنا کہتے ہیں۔ اس کا تجربہ آپ خود بھی کر سکتے ہیں گاڑی میں بیٹھ کر ایک یوٹرن پر بار بار گھومتے جائیں اور اگر گاڑی کے ٹائروں پر رنگ لگا ہو تو آپ کو احساس ہو گا کہ آپ دراصل ایک صفر کی صورت میں گھوم رہے ہیں۔
ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک عام شخص میں اور لیڈر کی بصارت میں کی فرق ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ لیڈر کی بصارت وہ دیکھ رہی ہوتی ہے جو عام شخص کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے تب ہی تو دنیا انہیں لیڈر مانتی ہے۔ خان صاحب فرماتے ہیں کہ غیرممالک سے بھیک مانگنے کے بجائے مرنا پسند کرونگا پھر بھیک مانگنے چلے گئے۔ فرماتے ہیں آزاد امیدواروں کو اپنی حکومت میں شامل نہی کریں گے اور پھر جہاز بھر کے ان کو حکومت میں شامل کرتے ہیں ۔ جس وقت میں یہ سطور ٹائپ کر رہا ہوں حکومت کے سو دن مکمل ہو چکے ہیں۔ وعدے کے مطابق آج تک پانچ لاکھ سینتالیس ہزار نو سو لوگوں کو روزگار ملنا چاہئے تھا اور دو لاکھ تہتر ہزار نوسوپچاس بے گھروں کو گھر ملنے چاہئے تھے۔ ان وعدوں کے حوالے سے یوٹرن سُننے میں آرہے ہیں۔ عمران خان صاحب نے دو روزہ رحمتہ للعالمین کانفرنس میں مسیح ابن مریم کے حوالے سے پھر ایک غلط دعویٰ کیا فرماتے ہیں کہ تاریخ میں مسیح ابن مریم کا کہیں کوئ زکر موجود نہی ۔ وزیر اعظم کی کم علمی پر بہت سے طبقات نے حیرت کا اظہار کیا ۔ بندہ ان سے پوچھے کہ تاریخ کے وقت کی اکائ یا پیمانہ ہی مسیح ابن مریم کے نام سے منسوب ہے۔
یعنی قبل از مسیح یا بعد مسیح۔ اس کے علاوہ عیسیوی کیلنڈر جس پر آج پوری دنیا کا انحصار ہے وہ بھی ان ہی کے نام سے منسوب ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نسل انسانی کی تاریخ میں سب سے زیادہ مستند اور معتبر کتابیں وہ ہیں جن کو ہم کلام الہیٰ کہتے ہیں۔ جن میں بائبل مقدس اور قرآن شریف ہیں۔ کیا ہم ان کی تاریخی حثیت کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ کیا ان کُتب کے بعد ہمیں کسی اور کتاب کی گواہی کی ضرورت رہ جاتی ہے۔ تو پھر اگر بائبل مقدس کو اگر ایک طرف رکھ دیں اور صرف قرآن شریف کا مطالعہ کریں تو 25 بار مسیح ابن مریم کا زکرقرآن میں موجود ہے۔ اور عمران خان نا جانے کونسی تاریخ کی بات کر رہے ہیں کہ تاریخ میں مسیح ابن مریم کا زکر موجود نہی ہے۔ تاریخ میں مسیح ابن مریم کے حوالے سے بہت کچھ موجود ہے چند مثالیں دونگا تفصلی میں نہی جاؤنگا۔ جوزفس ایک یہودی عالم اور تاریخ دان تھا جو 37 بعد از مسیح پیدا ہوا، اس نے اپنی تحریروں مین مسیح ابن مریم کا زکر کیا ہے۔
یونانی محقق اور مورخ لوشین آف ساموساٹا (آج ترکی کا حصہ) 125 سال بعد از مسیح میں پیدا ہوا رومی سلطنت میں اسے اہم مقام حاصل تھا۔اس نہ نہ صرف مسیح کا بلکہ اس کی صلیب کا بھی زکر کیا ہے۔ ، پلینی دی یونگر 61 بعد از مسیح پیدا ہوا یہ ایک رومی گورنر، قاضی اور تاریخ دان تھا، پیبلوئس کورنیلئیس ٹاکٹس ایک مورخ کے علاوہ رومی حکومت میں سینٹر تھا۔ یہ تمام لوگ تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں اور ان کا مسیحیت سے کوئ تعلق بھی نہی تھا۔ مگر انہوں نے مسیح ابن مریم کے حوالے سے اپنی تحریروں میں ان کا زکر کیا ہے۔ میں نے یہاں مسیحی مورخین، محققین اور عالیمن کا زکر نہی کیا ہے۔ اس کے علاوہ سینکنڑوں برس سے مسیح ابن مریم کے نام سے لوگ دعویٰ مسیحیت کرتے چلے آرہے ہیں۔ خان صاحب کو شاید تاریخ کے حوالے سے کوئ جانکاری نہی ہے۔ کیا ہمیں خان صاحب کا ایک اور یوٹرن دیکھنا پڑے گا؟۔ کیا خان صاحب واقئ آکسفورڈ یونی ورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں یا آکسفورڈ کوچنگ سینٹر کراچی سے ؟؟