پاکستان کے ازلی دشمن بھارت میں حکومت کے لیے الیکشن کے دن جیسے جیسے قریب آتے جا رہے ہیں ویسے ویسے بھارت میں مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ پچیس نومبر کو ایودھیا میں ہونے والی ‘دھرم سبھا’ کے اعلان سے ہی ماحول خراب ہوتا نظر آ رہا ہے، کیونکہ انتہا پسند ہندو تنظیم شیو سینا نے ایک متنازعہ پوسٹر جاری کیا ہے جس میں کاشی کی ‘مسجد’ کو منہدم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ شیو سینا کے ایک رہنما اجے چوبے کی جانب سے ایک پوسٹر سامنے آیا ہے جس میں صاف لکھا ہے 25 نومبر کو ایودھیا میں مندر تعمیر اور کاشی میں گیان واپی مسجد کو منہدم کرنے کا اعلان ہوگا”۔ اجے چوبے بھارتی ریاست اتر پردیش میں شیو سینا کے سربراہ ہیں۔ اجے چوبے کے اس پوسٹر سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ رام مندر تعمیر کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ فرقہ وارانہ ماحول کو زندہ اور کشیدہ کرنا ہے۔ رام مندر کے بعد ان لوگوں کا اگلا ہدف کاشی کی گیان واپی مسجد ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کاشی اور دیگرمساجد کی انہدام کرنا ان فرقہ پرست تنظیموں کے ایجنڈے میں ہے۔
بھارت ہی میں سرکاری سرپرستی میں جھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال ہورہا ہے، میڈٰیا پر انتہاپسند جعلی خبریں پھیلا کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔انتہا پسندوں نے من گھڑت خبریں پھیلا کر مسلمانوں کو نشانہ بنانا معمول بنا لیا، وزیراعظم مودی کے حامی نیٹ ورکس اور سوشل میڈیا جعلی خبریں پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق جعلی خبروں کو قوم پرستی کے نام پر منصوبہ بندی کے تحت پھیلایا جاتا ہے، مسلمان مخالف اور نفرت انگیز پیغامات بغیر تحقیق آگے بڑھائے جاتے ہیں۔ان خبروں پر مسلمانوں کے نقصان کومودی سرکار مکمل نظرانداز کرتی ہے اور ذمہ داروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتی۔بھارت میں یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے قبل متعدد بار بھارت میں موجود مسلمان شہری ہندوں انتہا پسندوں کے ظلم کا شکار ہوئے۔کبھی گائے ذبح کرنے کے نام پر مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے تو کبھی تعصب اور اسلام دشمنی میں انتہا پسند مسلمانوں کو اذیت پہنچاتے ہیں۔بھارت کی مغربی ریاست گجرات کے وزیر اعلی وجے روپانی اور نائب وزیر اعلی نتن پٹیل نے حال ہی میں کہا ہے کہ حکومت گجرات کے سب سے بڑے شہر احمدآباد کا نام کرناوتی کرنے پر غور کر رہی ہے۔ ان کے بیان میں مسلم مخالف جھلک صاف نظر آتی ہے۔
یہ امر اپنے آپ میں متنازع فیہ ہے کہ احمد آباد کا نام پہلے کبھی کرناوتی ہوا کرتا تھا۔عہد وسطی کے مسلم حکمراں احمد شاہ نے سنہ 1411 میں اس شہر کی تعمیر کی تھی اور یہ ایک فصیل بند شہر ہوا کرتا تھا۔بہر حال موجودہ بھارتی حکومت کے لیے اس کی کوئی تاریخی اہمیت نہیں ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کو ‘راکشش’ یعنی عفریت کے طور پر پیش کرنے پر کمربستہ ہے جو کہ ہندتوا کے منصوبے میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔اس کے ذریعہ نہ صرف گجرات کی تاریخ میں مسلمانوں کے اثرات اور اہمیت کو کم کرنے کی کوشش جاری ہے بلکہ اس کے ساتھ گجراتی مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ تشدد، عدم مساوات، سماجی و اقتصادی فرق، اور مسلمانوں کے وہاں گھر نہ خریدنے کی کہانیوں کو بھی معرض وجود میں نہیں آنے دیا جا رہا ہے۔ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد کا اہم عنصر مذہبی یادگاروں کی تباہی رہی ہے۔ ان کا مقصد ہمیشہ مختلف رہا ہے۔ ان میں قتل و غارت گری کے ساتھ کاروبار کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔مثال کے طور پر گجرات میں سنہ 1969 میں ہونے والے فسادات کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ جسٹس جگن موہن ریڈی کمیشن نے کہا تھا کہ فسادات میں مساجد، قبرستانوں، درگاہوں سمیت مسلمانوں کے تقریبا 100 مذہبی مقامات کو تباہ کیا گیا تھا۔
سنہ 1980 اور 1992 کے فسادات کے دوران بھی یہ کارروائیاں ہوئیں اور سنہ 2002 فسادات کے دوران یہ سب سے زیادہ نظر آیا جب مسلمانوں سے منسلک 500 سے زائد مذہبی مقامات کو نقصان پہنچایا گیا یا انھیں تباہ کیا گا۔سنہ 2007 میں سپریم کورٹ نے گجرات ہائی کورٹ کے اس حکم کو کالعدم قرار دیا جس کے تحت مسمار اور منہدم کی جانے والی مذہبی املاک کو حکومت گجرات کی طرف سے صرف 50 ہزار روپے تک امداد دیے جانے کی بات کہی گئی تھی۔اس معاملے میں ولی محمد ولی کے مقبرے کو تباہ کرنے کا ذکر بھی ذکر کیا گیا تھا۔ سنہ 2002 میں ہوئے فسادات میں اسے مکمل طور سے تباہ کر دیا گیا اور اس کی مرمت کرنے کے بجائے احمد آباد میونسپل کارپوریشن نے راتوں رات اس مقبرے کے اوپر پکی سڑک بنا دی۔یہ مقبرہ احمد آباد کے شاہی باغ علاقے میں واقع پولیس کمشنر کے دفتر سے زیادہ دور بھی نہیں تھا۔ولی محمد ولی یا ولی دکنی کو ولی گجراتی کینام پر بھی جانا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف اردو کے بڑے شاعر تھے بلکہ وہ پہلے ایسے فلسفی تھے جنھوں نے گجرات کو ایک پہچان دی۔ گجرات کے بارے میں ان کے احساسات ان کی غزلوں میں نظر آتے ہیں جس میں وہ گجرات سے رخصتی کے وقت اداسی میں ڈوب جاتے ہیں۔
ایمنسٹی انڈیا کے حالیہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر آکار پٹیل نے جب گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی سے ولی گجراتی کے مقبرے کی دوبارہ تعمیر کی بات کی تھی تو مودی نے پٹیل سے کہا تھا کہ اس کے وافر ثبوت نہیں ہیں کہ وہاں کسی ولی کا مقبرہ تھا۔اسی طرح کئی مرتبہ اسلامی وراثت اور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ جیسے نیڑا جھیل (پہلے حوض قطب) کے بارے میں سننے کو ملتا رہا ہے کہ پہلے یہ ?رنا ساگر جھیل تھی جو چال یہ خاندان کے حکمران رن دیو سولنکی نے بنوائی تھی۔بہر حال اس جھیل کے متعلق وافر شواہد نہیں جو ان دعووں کی تصدیق کر سکیں۔ تاہم ایک ماخذ سے پتہ چلتا ہے شمالی گجرات کے پاٹن ضلعے میں ایک کرنا ساگر نامی جھیل تھی۔تاریخ کے انکار کے ساتھ ساتھ حال میں موجود اسلامی ورثہ کو نظر انداز کرنے کی کوشش جاری ہے۔ مثال کے طور پر احمد آباد کے مقبرے کے بیرونی حصے میں موجود سرحیز روضے کو مناسب طور سے محفوظ نہیں کیا گیا ہے۔احمد آباد کی شان کہی جانے والی اس عمارت سے منسلک جھیل ہر سال خشک ہو جاتی ہے اور اس کے پڑوس میں رہنے والے افراد اس میں کرکٹ کھیلتے ہیں۔
یہ واضح طور پر سیاسی قیادت میں مسلمانوں کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بی جے پی کی طرف سے مسلمانوں کو مسلسل نظر انداز کیے جانے کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اب تک ایک بھی مسلم امیدوار اس جماعت سے اسمبلی تک نہیں پہنچا ہے۔در حقیقت کانگریس پارٹی نے ہندتوا کا ‘سافٹ برانڈ’ اپنا لیا ہے۔ سنہ 2017 میں اسمبلی انتخابات کے دوران راہل گاندھی نے مسلم مذہبی مقامات پر جانے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔کرناوتی کے صحیح تاریخی ثبوت کے بغیر احمد آباد کا نام تبدیل کرنا مشکل ہے۔ اگر حکومت یونسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل اس شہر کا نام تبدیل کرنا چاہتی ہے تو پھر اسے یونیسکو سے بھی منظوری لینی ہوگی۔اس کے ساتھ بی جے پی کی اسلامی وراثت کے متعلق اس کی دوہری پالیسی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی ثقافتی وراثت کے شہروں میں شامل ہونے اور سیاحت کو فروغ دینے کے لیے وہ گجرات کے عہد سلطنت کی یادگار عمارتوں پر منحصر ہے۔دوسری جانب وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مشکوک تاریخ کی حمایت کرتی ہے۔ اس مجموعی حکمت عملی کا واحد مقصد سنہ 2019 کے عام انتخابات سے پہلے مسلمانوں کی تاریخ کو مٹا کر ریاست کا ماحول خراب کیا جانا ہے۔حکومتی سرپرستی میں مسلمانوں کی شناخت اور نام و نشان مٹانے کے ایجنڈے تحت میں ہندو تنظیمیں نوجوانوں کو ورغلا کر انکے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت پیدا کر رہی ہیں۔ چند ہفتے قبل انتہا پسند تنظیم شیو سینا نے بابری مسجد کی رام مندر کی تعمیر کے لیے 25 ہزار نوجوانوں پر مشتمل موومنٹ بنانے کا اعلان کیا۔ ہزاروں انتہا پسند نوجوانوں پر مشتمل موومنٹ کو ہر طرح کی تربیت دے کر میدان میں اتارا جائے گا۔
یہ سمجھنا مشکل ہے کہ انڈیا کی اکثریتی ہندو آبادی اپنی نمائندگی کا فقدان کیوں محسوس کرتی ہے یا بی جے پی انہیں مظلوم اکثریت کے طور پر کیوں دیکھتی ہے۔انڈیا کے 677,000 دیہات میں سے 7000 سے زیادہ دو مشہور ہندو بھگوان رام اور کرشنا کے نام سے منسوب ہیں۔ اس کے مقابلے میں مغل بادشاہ اکبر کے نام پر محض 234 دیہات ہیں۔دنیا بھر میں شہروں اور جگہوں کے نام مختلف وجوہات کی بنا پر تبدیل کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ وجوہات انڈیا سے بھی مماثلت رکھتی ہیں۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اسلامی ناموں کو ختم کرنے کا مقصد انڈیا کے مسلمانوں کو اختیار سے محروم کرنا اور ملک کی تاریخ میں ان کے کردار کو ختم کرنا ہے۔وہ اس کا موازنہ ہمسایہ ملک پاکستان سے کرتے ہیں جہاں بیشتر سڑکوں اور مقامات کے نام مسلمان شخصیات کے نام سے تبدیل کر دیہ گئے ہیں۔ مؤرخ عرفان حبیب کہتے ہیں کہ ‘سیاست میں ہمیشہ سب سے پہلا نشانہ تاریخ بنتی ہے۔’بھارت کے عام انتخابات میں صرف پانچ ماہ رہ گئے ہیں، اور بی جے پی کے نام تبدیل کرنے کی روش کو ووٹرز کو قائل کرنے کی ایک کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔مارچ میں وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے پارلیمان کو بتایا تھا کہ انھیں مختلف ریاستوں سے مختلف دیہات، قصبوں اور ریلوے سٹیشنوں کے نام تبدیل کرنے کی تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ ان میں سے بیشتر درخواستیں بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں ہریانہ اور راجستھان سے تھیں۔
ایسے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں کہ ناموں کی تبدیلی سے پارٹی کے ووٹوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ حالیہ ناموں کی تبدیلی کے حق میں کوئی احتجاج نہیں ہوئے اور نہ ہی ایسا ہونے کے بعد لوگوں میں کوئی ا اطمینان یا خوشی نظر آتی ہے۔