نارووال (جیوڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ تحصیل شکر گڑھ میں واقع گوردوارہ صاحب کے قریب کرتارپور کوریڈور کے سنگ بنیاد کی تقریب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، بھارتی وفد، مختلف ممالک کے سفارتکار، عالمی مبصرین اور سکھ برادری کے افراد کی بڑی تعداد شریک ہے۔
بھارتی نمائندگی وزیر خوراک ہرسمرت کور اور وزیر تعمیرات ہردیپ سنگھ کررہے ہیں جب کہ سابق بھارتی کرکٹر و سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو، گورنر پنجاب چوہدری سرور، وزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی تقریب میں شریک ہیں۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، بابا نانک کا فلسفہ جوڑنے کا ہے توڑنے کا نہیں، خون خرابہ بند ہونا چاہیے، امن آنا چاہیے، بہت خون خرابہ ہوگیا اور بہت نقصان ہوگیا۔
بھارتی وزیر ہرسمرت کور نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 70 سال میں ہم کتنا نزدیک ہو کر بھی کتنے دور تھے، آج دوریاں ختم ہورہی ہیں، میرے گرونانک کا بلاوا آیا تو آج آپ کی دھرتی پر آئی ہوں۔
بھارتی وزیر نے کہا کہ جس دن بھارتی کابینا نے راہداری کی منظوری دی اس دن میری دنیا ہی بدل گئی، عمران خان جب کرکٹ کھیلتے تھے تو انہیں نہیں پتا تھا کہ وہ اس عہدے پر پہنچیں گے اور نریندری مودی جب چائے بیچتے تھے انہیں نہیں پتا تھا کہ وہ اس عہدے پر پہنچیں گے۔
ہرسمرت کور کا کہنا تھا کہ جیسے بابا گرونانک نے سب کو جوڑا ویسے کرتار پور راہداری بھی سب کو جوڑے گی۔
کرتار پور کہاں واقع ہے؟
کرتارپور گوردوارہ ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ میں واقع ہے جو بھارتی سرحد سے کچھ دوری پر واقع ہے، گوردوارہ دربار صاحب 1539 میں قائم کیا گیا۔
بابا گرونانک نے وفات سے قبل 18 برس اس جگہ قیام کیا اور گرونانک کا انتقال بھی کرتارپور میں اسی جگہ پر ہوا۔
پاکستان گردوارہ صاحب سے سرحد تک اپنی حدود میں کرتارپور کوریڈور فیز ون میں ساڑھے 4 کلو میٹر سڑک تعمیر کرے گا، اسی طرح بھارت بھی اپنی حدود میں سرحد تک راہداری بنائے گا۔
منصوبہ مکمل ہونے پر یاتریوں کو کرتارپور کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں پڑے گی تاہم اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان حتمی بات چیت ہونا باقی ہے۔
پہلے مرحلے میں دریائے راوی پر 800 میٹر پل، پارکنگ ایریا، سیلاب سے بچاؤ کے لیے فلڈ پروٹیکشن بند اور گوردوارہ کمپلیکس کی تعمیرنو کی جائے گی جب کہ گوردوارہ دربار صاحب میں بارڈر ٹرمینل کی تعمیر منصوبے کا حصہ ہے، دریائے راوی پر پل کی تعمیر اور سڑک کے ذریعے محفوظ رسائی بھی منصوبے کا حصہ ہے۔
دوسرے مرحلے میں گوردوارہ دربار صاحب میں اضافی رہائش کی تعمیر ہوگی، یاتریوں کو ویزہ فری انٹری، بس سروس، میڈیکل کی سہولت، ٹک شاپ، فلاور شاپ، کیفے ٹیریا اور لائبریری کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
آج واہگہ بارڈر کے ذریعے پہنچے والے وفد میں شامل بھارتی وزیر ہرسمرت کور بادل کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آج وہاں جارہی ہوں جہاں بابا گرونانک نے 18 برس گزارے، آج بہت جذباتی ہوں، خوابوں میں بھی نہیں سوچا تھا کہ کرتار پور جاسکوں گی، میرے جیسے لاکھوں لوگوں کی دعائیں رنگ لارہی ہیں۔
خیال رہے کہ رواں ماہ 22 نومبر کو بھارت کی وفاقی کابینہ نے پاکستان کی تجویز مانتے ہوئے کرتارپور سرحد کھولنے کی منظوری دی تھی، اس منصوبے کے تحت بھارت پاکستان کی سرحد تک اپنی حدود میں سکھ یاتریوں کیلئے سڑک تعمیر کرے گا۔
اس حوالے سے بھارتی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کہا تھا کہ بھارتی حکومت بھارتی پنجاب کے ضلع گرداسپور میں ڈیرہ بابا نانک سے پاکستان کی سرحد تک راہداری تعمیر کرے گی۔ بھارتی ریلوے اس سلسلے میں ایک ٹرین چلائے گی جو گرونانک سے وابستہ مقدس مقامات سے گزرے گی اور اس فیصلے کا مقصد پاکستان جانے والے سکھ یاتریوں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔
لاہور سے تقریباً 120 کلومیٹر کی مسافت پر ضلع نارووال میں دریائے راوی کے کنارے ایک بستی ہے جسے کرتارپور کہا جاتا ہے، یہ وہ بستی ہے جسے بابا گرونانک نے 1521ء میں بسایا اور یہ گاؤں پاک بھارت سرحد سے صرف تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
نارووال شکر گڑھ روڈ سے کچے راستے پر اتریں تو گوردوارہ کرتار پور کا سفید گنبد نظر آنے لگتا ہے، یہ گوردوارہ مہاراجہ پٹیالہ بھوپندر سنگھ بہادر نے 1921 سے 1929 کے درمیان تعمیر کروایا تھا۔
گرو نانک مہاراج نے اپنی زندگی کے آخری ایام یہیں بسر کیے اور اُن کی سمادھی اور قبر بھی یہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ کرتارپور سکھوں کے لیے مقدس مقام ہے۔
بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کو کرتارپور تک پہنچنے کے لیے پہلے لاہور اور پھر تقریباً 130 کلومیٹر کا سفر طے کرکے نارووال پہنچنا پڑتا تھا جب کہ بھارتی حدود سے کرتارپور 3 سے 4 کلو میٹر دوری پر ہے۔
ہندوستان کی تقسیم کے وقت گوردوارہ دربار صاحب پاکستان کے حصے میں آیا، دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث طویل عرصے تک یہ گوردوارہ بند رہا۔
بھارتی سیکیورٹی فورس نے سرحد پر ایک ‘درشن استھل’ قائم کر رکھا ہے جہاں سے سکھ دوربین کی مدد سے دربار صاحب کا دیدار کرتے ہوئے اپنی عبادت کیا کرتے تھے، تاہم پہلی بار 1998 میں دونوں حکومتوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت ہر سال سکھ یاتریوں کو کرتارپور کا ویزہ ملنا شروع ہوا۔
گوردوارے کے انچارج سردار گوبند سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ پہلے جنگل تھا، 2000ء میں اس کی دوبارہ تعمیر و مرمت کی گئی تو سکھ یاتریوں کی آمد شروع ہوگئی، گوردوارے کے باغیچے میں واقع کنویں کو ‘سری کھوہ صاحب’ کہا جاتا ہے۔
گورداورے میں ایک لنگر خانہ بھی ہے جہاں یاتریوں کی خاطر تواضع کی جاتی ہے۔