جناب چیف جسٹس ثاقب نثار نے فرمایا ھے۔ چندے سے ڈیم بنانا ممکن نہیں۔ اگر ھم صرف چندے سے ڈیم بنانے کی کوشش کریں تو اس کوشش میں نو سال لگ جائیں گے۔ چناچہ ھمیں ڈیم بنانے کے لیے اور پیسے اکھٹے کرنے کے لیے دوسرے ذرائع فنڈ ریزنگ پر بھی کام کرنا پڑے گا۔ انہوں نے ماہرین معاشیات کو درخواست کی کہ چندے کے علاوہ فنڈ جمع کرنے کے مختلف ذرائع پر ان کی راھنمائ کی جائے۔ برطانیہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ھوے جناب چیف جسٹس صاحب نے وطن عزیز کو درپیش پانی کے مسائل پر بھی سیر حاصل گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا۔ پاکستان میں آخری ڈیم چالیس سال قبل بنایا گیا۔ نئے ڈیمز کا نہ بنانا ایک مجرمانہ غفلت تھی۔ اور اس کا حساب لینا ھو گا۔ پاکستان کے شہروں میں پانی کی سطع خطرناک حد تک نیچے گر گئ ھے۔ اور پینے کا صاف پانی عدم دستیاب ھوتا جا رھا ھے۔ جبکہ سیوریج اور پینے کا پانی ساتھ ساتھ ھونے سے پینے کا پانی مضر صحت ھو رھا ھے۔ اور پانی کی کمی نے ایک سنجیدہ مسئلہ اختیار کر رھا ھے۔ چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ وطن عزیز میں ہسپتالوں کی صورت حال ٹھیک نہیں اور مریضوں کو دوائیاں میسر نہیں ۔ ان کا یہ بھی فرمانا تھا۔ کہ پاکستان میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ھے۔ یاد رھے۔
آنر ایبل چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب اپنے بیٹے کی گریجوئیشن تقریب میں شرکت کرنے ایک نجی دورے پر برطانیہ تشریف لائے تھے۔ اور ان کے ھمراہ ان کی فیملی کے افراد بھی موجود تھے۔ چیف جسٹس صاحب کے مطابق ان کے اس نجی دورے کے دوران کچھ درد مند اشخاص نے جو اپنے وطن سے محبت کرتے ھیں ۔ بھاشہ ڈیم کی تعمیر کے لیے چند فنڈ ریزنگ تقریبات کا اھتمام کر رکھا تھا ۔ جس میں شرکت کرنا ان کے نزدیک ایک قومی فریضہ تھا۔
چیف جسٹس صاحب کا فرمانا تھا ۔ فنڈ ریزنگ مہم نہ صرف ایک قومی کمپین بن چکی ھے بلکہ ایک انسانیت کی بنیاد بنتی جا رھی ھے۔ برطانیہ میں منعقد ڈیم کی تعمیر کے لیے یہ فنڈ ریزنگ تقریبات خاصی کامیاب رھیں ۔ اور تارکین وطن اور نیک نام اور سخی پرور افراد نے دل کھول کر اس فنڈ ریزنگ مہم میں حصہ لیا ۔ ایک اندازے کے مطابق اس فنڈ ریزنگ مہم کے دوران خطیر رقم اکھٹی کی گئ۔ اور کہا جا سکتا ھے۔ اس طرح جناب چیف جسٹس صاحب کا یہ دورہ کامیاب رھا۔ لیکن اس کے باوجود چیف جسٹس صاحب کا یہ فرمانا کہ ھمیں ڈیمز بنانے کے لیے چندے کے علاوہ دوسرے ذرائع فنڈ ریزنگ پر بھی توجہ دینی ھو گی۔ ایک حقیت پسند سوچ کا مظہر ھے۔ یاد رھے ۔ بھاشہ ڈیم کی تعمیر کے لیے 14 بلین ڈالر کا تخمینہ ھے۔ جو پاک روپے میں تقریبا 18 کھرب یعنی 18 سو ارب روپے بنتا ھے۔ اگر ڈالر کی قیمت میں اضافہ ھوتا رھا اور پاک روپے کی قیمت گرتی رھی تو یہ تخمینہ بھی بڑھ سکتا ھے۔
اسٹیٹ بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ڈیم فنڈ میں اب تک سات ارب ستانوے کروڑ روپے اکھٹے ھوے ھیں ۔ جس میں پاکستان کے اندر سے سات ارب روپے جبکہ ستانوے کروڑ روپے بیرون ملک سے آئے ھیں ۔ ان ستانوے کروڑ روپوں میں امریکہ سے آنے والا چندہ نمبر ون جبکہ برطانیہ دوسرے نمبر پر ھے۔ یاد رھے۔ اسٹیٹ بنک نے ڈیم فنڈ ریزنگ مہم کے تحت ھونے والی کسی بھی بنک ٹرانسفر پر کسی بھی قسم کی فیس ختم کر رکھی ھے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی تارکین وطن سے فنڈ ریزنگ مہم میں ایک ایک ھزار ڈالر دینے کی اپیل کر رکھی ھے۔ اس کے باوجود یہ خیال کیا جا رھا ھے۔ کہ صرف چندے سے یہ ڈیم تعمیر کرنا ممکن نہیں ھے۔ جس رفتار سے چندے آ رھے ھیں ۔ اس کے مطابق 1800 ارب روپے اکھٹے کرنے میں ایک صدی لگ سکتی ھے۔
اس لیے جناب چیف جسٹس صاحب نے دوسرے ذرائع فنڈ ریزنگ مثلا بانڈ وغیرہ پر بھی ماھرین معیشت کی رائے طلب کی ھے۔ یاد رھے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت بھاشہ ڈیم کی زمین پہلے ھی 120 ارب روپے سے خرید چکی ھے۔ اور مسلم لیگ ن کی حکومت نے دعوی کیا تھا کہ وہ بھاشہ ڈیم کو اپنے ملکی ذرائع سے تعمیر کرے گی۔ ایک اندازے کے مطابق ملکی ذرائع سے یہ ڈیم تعمیر کرنے کی صورت میں ملکی جی ڈی پی کا دس فیصد خرچ ھو سکتا ھے۔ معاشی ماھرین کا کہنا ھے۔ اتنے بڑے پراجیکٹس چندوں سے تعمیر نہیں ھوتے ان کے لیے ڈونر ملکوں اور ڈونر تنظیموں اور عالمی بنکوں کی ضرورت پڑتی ھے۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت عمران حکومت غیر ملکی امداد حاصل کرنے میں ناکام ثابت ھو رھی ھے۔ عمران حکومت کو اس وقت اپنا بیلنس آف پیمنٹ درست کرنے کے لیے 12 ارب ڈالر کی ضرورت ھے۔ ن لیگ حکومت نے جو 18 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر چھوڑے تھے۔ وہ اس وقت سات ارب ڈالر کی سطع پر پہنچ چکے ھیں ۔ تجارتی خسارہ دن بدن بڑھ رھا ھے۔
جبکہ سعودی عرب، چین ، یو اے ای اور ملائشیا کے دورے کسی بھی قسم کی مالی امداد حاصل کرنے میں ناکام رھے ھیں ۔ سوشل میڈیا پر ایک لطیفہ گردش میں ھے۔ سعودی قرض خرچ نہیں کیا جا سکتا۔ چینی امداد بتائ نہیں جا سکتی۔ یو اے ای مدد دکھائ نہیں جا سکتی جبکہ آئ ایم ایف کا قرض کڑی شرائط کی بنا پر لیا نہیں جا سکتا۔ اس صورتحال میں جناب چیف جسٹس صاحب کی چندہ مہم قابل ستائش ھے۔ پانی کے مسائل پر انہوں نے جو قومی مہم اٹھائ ھے۔ وہ ان کے اخلاص، دردمندی اور قوم سے محبت کی مظہر ھے۔ اور ھر پاکستانی کو نہ صرف اس کی تعریف کرنا چاھیے بلکہ دل کھول کر اس میں حصہ لینا چاھیے۔ ایسے موقع پر سوشل میڈیا پر جو تنقیدی سوالات اٹھائے جا رھے ھیں ۔ کہ جناب چیف جسٹس صاحب کس حیثیت سے چندہ مہم میں حصہ لے رھے ھیں ۔ یا یہ کہ اگر انہوں نے بات کرنی ھے۔ تو اپنی عدالتوں اور انصاف کی ترسیل کے حوالے سے بات کریں ۔ یہ کہ عدالتوں میں لاکھوں مقدمات التواء کا شکار ھیں ۔ کئ کئ سال لوگوں کو انصاف نہیں ملتا۔ جبکہ چیف جسٹس صاحب عدالتی انصاف اور عدالتی ریفارمز پر کام کرنے کی بجاے ڈیمز اور پانی اور ہسپتالوں پر توجہ دے رھے ھیں جو کہ حکومتی کام ھیں ۔ اس طرح جناب چیف جسٹس صاحب کے اس برطانوی نجی دورے کے اخراجات پر بھی سوال اٹھایا جا رھا ھے۔
ایک اعتراض یہ بھی سامنے آیا ھے۔ کہ ان فنڈ ریزنگ مہم تقریبات کے سپانسرز ایک مخصوص سیاسی پارٹی کے افراد تھے۔ یہ تمام اعتراضات براے اعتراضات ھیں اور اس عظیم قومی کمپین کے سامنے ھیچ ھیں ۔ اس کے باوجود اگر ممکن ھو تو سپریم کورٹ کے آفس کو سرکاری طور پر ان تمام اعتراضات کا ایک ایک کرکے مناسب جواب دینا چاھیے تاکہ عام لوگوں کے زھن میں کوئ بدگمانی نہ رھے۔ اور ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈ ریزنگ مہم کامیابی سے رواں دواں رھے۔ اور جناب چیف جسٹس صاحب نے جو یہ نعرہ حق ببانگ دہل بلند کیا ھے کہ وہ دریاے سندھ کے ایک ایک انچ پر ڈیم تعمیر کر دیں گے۔ وہ اس میں کامیاب ھو سکیں گے۔