چار سو اندھیرا ہے کہکشاں نہیں کوئی پھر بھی راستہ اپنا بے نشاں نہیں کوئی اے رہِ محبت کی خاک چومنے والو چل پڑو کہ ساتھ اپنے کارواں نہیں کوئی پوچھ تو کبھی ان سے زندگی کے رنج و غم جن کے سر پہ دنیا میں سائباں نہیں کوئی ان کا ظاہر وباطن سب عیاں ہے دنیا پہ عشق کرنے والوں کا رازداں نہیں کوئی بے حسی کا عالم ہے ایسا تیری محفل میں بے زبان لوگوں کا ترجماں نہیں کوئی جانے یہ حقیقت ہے یا کہ واہمہ کوئی تیرے میرے رشتے کے درمیاں نہیں کوئی وقت کی مسافت کے بے کنار صحرا میں دھوپ ہے قیامت کی سائباں نہیں کوئی