مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ امیر المومنین حضرت علی کا مشہو ر سنہری قول مبارک ہے کے ظلم کیساتھ توریاست چل سکتی ہے لیکن جس ملک یا معاشرے میں ناانصافی ہووہاں ملک کا چلنا بہت مشکل ہوتا ہے کسی بھی ملک میں عدلیہ کا کردار بہت ہی زیادہ اہم ہے مجموعی طور پر پاکستان میں عدلیہ کا کردار اچھا رہا ہے ماضی میں کسی تک عدلیہ کے امور میں مداخلت کی شکایات پائی جاتی ہیں لیکن اب ملک کی عدالتیں آزاد ہیں اور ان کی کارگردگی بھی پہلے سے کہیں بہت زیادہ بہتر ہے خاص طور پر موجودہ دور میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جناب ثاقب نثار عدلیہ میں تاریخی کردار ادا کررہے ہیں وہ ہفتہ وار اتور کی چھٹی کیے بغیر روزانہ کی بنیاد پر اہم ترین مقدمات کی سماعت کررہے ہیں انھوں نے ملک میں پانی کے بحران پر نوٹس لیتے ہوئے دیامیر بھاشا ڈیم بنانے کے لیے فیصلہ دیا جس کے لیے باقاعدہ اکائونٹ کھول کر فنڈز بھی اکٹھے کر رہے ہیں۔
یہ ملک کا اہم ترین مسئلہ تھا جس پر ماضی کی حکومتوں نے غفلت کا مظاہرہ کیا اور گذشتہ چالیس سال کے دوران ایک بھی ڈیم نہیں بنایا گیا جس سے ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو پانی کے بحران کا شدید خطرہ تھا اسی طرح چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جناب ثاقب نثار ملک کے طاقتور ترین قبضہ مافیا اور کرپشن کیخلاف برسرپیکار ہیں ان کی قیادت اور تقلید میں عدلیہ اور خاص طور پر اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان بھی بہت اچھی کارگردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود ابھی نچلی سطح پر عدلیہ میں بڑی شکایات ہیں اس کی سب سے ایک بڑی وجہ عدلیہ میں جج صاحبان اور عملہ کی کمی ہے دوسرے ایک عرصہ سے عدلیہ میں بہتری کے لیے اصلاحات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اس وقت اعلیٰ عدلیہ کیساتھ ماتحت عدالتوں کے اندر لاکھوں کی تعداد کے کیسز فیصلوں میں تاخیر کا شکار ہیں جس کیوجہ سے کروڑوں کی تعداد میں سائلین مشکلات اور مسائل سے دوچار ہیں اس کے لیے عدالتوں میں مقدامات کے جلد فیصلوں کے لیے عدلیہ میں جج صاحبان اور عملہ کی تعداد بڑھانے کے اتھ ساتھ عدلیہ میں موجودہ حالات کیمطابق اصلاحات لانے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستاں کی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات اور ججز کی تعداد کے بارے میں یہاں ایک تفصیل پیش ہے جس سے عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ اور مشکلات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے یہ معلومات اور تفصیلات فراہم کرنے میں ایک محب وطن پڑھے لکھے دوست محمد عرفان یوسف نے بہت مدد کی تفصیلات کے مطابق اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان میں 40,243 زیرسماعت کیسزالتوا اور تاخیر کا شکار ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد سترہ ہے اس حساب سے سپریم کورٹ میں ہر معزز جج صاحب کو 2367 کیسزکی سماعت کرنا پڑتی ہے سترہ ججز صاحبان کے لیے اتنی بڑی تعداد میں کیسز کی سماعت کرکے بروقت فیصلے دینا بہت ہی زیادہ مشکل ہے اسی طرح ملک بھر کی ہائیکورٹس میں بھی ججز صاحبان کی کمی کے نتیجے میں زیرسماعت مقدمات تاخیر کا شکار ہیںلاہور ہائیکورٹ میں 1,65,515 کیسز زیرسماعت ہیںجبکہ ججز کی تعدا 56 ہے۔سندھ ہائیکورٹ میں 92,169 کیسز زیرسماعت اور ججز کی تعداد 34 ہیپشاور ہائیکورٹ میں زیرسماعت مقدمات کی تعداد 29,624 اور ججز کی تعداد ہے بلوچستان ہائیکورٹ میں 6,842 کیسز زیر سماعت ہیں اور ججز کی تعدادصرف آٹھ ہے اسی طرح اسلام آباد ہائیکورٹ میںپانچ ججز صاحبان کے پاس 17,059 مقدمات زیرسماعت التوا کا شکار ہیںیہ صورتحال ماتحت عدالتوں میں بھی زیرسماعت مقدمات کی بھرمار ہے جو ججز صاحبان کی کمی کیوجہ سے التوا ،تاخیر کا شکار ہیں۔
مثال کے طور پر ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی ڈسٹرکٹ کورٹس میں 10,95,542 کیسز زیر سماعت ہیں جبکہ ججز کی تعدا 1291 ہے اسی طرح کی صورتحال ملک کی دوسرے صوبوں کی ماتحت عدالتوں میں درپیش ہے جہاں ماتحت عدالتوں میںزیرسماعت مقدمات کی تعداد ججز کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے جس کے نتیجے میں مقدمات کے فیصلے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں اس بارے میں ہمارے ہاں ایک بڑی مشہور کہاوت تھی کہ اگر دادا کیس کرے گا تو اس کا فیصلہ پوتے کو ملے گااس وقت ملک بھر کی تمام عدالتوں زیر سماعت کل مقدمات کی تعداد 18,10,745 ہے جبکہ ملک بھر میں ججز صاحبان کی کل تعداد 2,325 ہے حکومت،متعلقہ اداروں اور چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جناب ثاقب نثار اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے اس کے لیے عدلیہ میں جج صاحباناور عملہ کی تعداد بڑھانے کیساتھ عدلیہ میں اصلاحات لائی جائیںاس سے جہاں عدالتوں کی کارگردگی بڑھے گی وہاں لوگوں کو بروقت انصاف ملے گااور ملک کے معاملات میں بھی بہتری آئے گی۔