چمن (نامہ نگار) جمعیت علماء اسلام ضلع قلعہ عبداللہ چمن کے رہنماء مولانا محمد صدیق مدنی نے کہا ہے کہ ان دنوں ملک بھر میں جمعیة علماء اسلام پاکستان کی رکن سازی کا سلسلہ جاری ہے اور آئندہ پانچ سالہ مدت کے لیے رکن سازی اور تنظیم نو کے عمل میں احباب ہر سطح پر سرگرم عمل ہیں۔ رکن سازی کے بعد مرحلہ وار جماعتی انتخابات ہوں گے اور پھر مرکزی انتخابات کے بعد نومنتخب مجلس عاملہ اگلے پانچ سال کے لیے جمعیة علماء اسلام پاکستان کا نظم و نسق سنبھال لے گی۔انہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت حضرات انبیاء کرام کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔
وہ نبی و رسول بھی ہوتے تھے، حاکم و خلیفہ بھی ہوتے تھے، قاضی و جج بھی ہوتے تھے اور کمانڈر و جرنیل بھی ہوتے تھے۔ حکومت، خلافت، تحریک آزادی، اصلاحِ معاشرہ اور کفر و ظلم سے سوسائٹی کو نجات دلانا انبیاء کرام کے فرائض میں شامل تھا۔ چنانچہ امت مسلمہ میں بھی علماء کرام ہر دور میں ان تمام شعبوں میں قیادت و راہنمائی کے فرائض سرانجام دیتے آرہے ہیں۔ مولانا محمدصدیق مدنی نے کہا کہ ہمارے ہاں برصغیر میں، جنوبی ایشیا میں اور خطہ ہند میں مسلم اقتدار کے ہر دور میں علماء کرام کا عمل دخل ان تمام دائروں میں مصلح اور راہنما کے طور پر موجود رہا ہے اور خاص طور پر حضرت مجدد الف ثانی کے دور سے تو یہ محنت کسی تعطل اور وقفہ کے بغیر جاری ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی نے اپنے طرز و اسلوب پر حکومت کی راہنمائی، نظام کی اصلاح، شریعت کے نفاذ اور کفر و ظلم کے قوانین کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کی۔ ان کا اسلوب مزاحمت اور محاذ آرائی کا نہیں بلکہ ساتھ رہ کر اصلاح احوال کی محنت کرتے رہنے کا تھا جس میں انہیں شاندار کامیابی حاصل ہوئی۔ انہوں نے محاذ آرائی نہیں کی لیکن سوسائٹی کے تمام اجتماعی دائروں میں راہنمائی اور اصلاح کی مسلسل اور کامیاب محنت کی۔ جبکہ ان کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے اس وقت کے حالات کے تحت محاذ آرائی اور مزاحمت کا راستہ اختیار کیا جس میں حضرت شاہ صاحب اور ان کے خاندانی کی علمی و فکری جدوجہد کے ساتھ ساتھ پانی پت کی تاریخی جنگ میں احمد شاہ ابدالی کی پشت پناہی اور کفر و ظلم کے سدباب کے لیے عسکری مہموں کی سرپرستی اس خاندان کا امتیاز رہی ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے معاشی اور انتظامی تسلط کے بعد اس کے خلاف جہاد کا فتوٰی اسی خاندان کے سربراہ شاہ عبد العزیز دہلوی نے دیا تھا اور شہدائے بالاکوٹ کی حکومت و جنگ دونوں کی سیادت و قیادت میں علماء کا یہ خاندان سرفہرست تھا۔
مولانا محمدصدیق مدنی نے کہا کہ برطانوی اقتدار کے دور میں مکمل آزادی کے مطالبہ کے ساتھ سیاسی جدوجہد کا آغاز جمعیة علماء ہند نے سب سے پہلے 1926میں کیا اور اس کے بعد ملک کے تمام سیاسی حلقے اسی ٹریک پر آتے چلے گئے۔ تحریک آزادی کی قیادت میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا سید حسین احمد مدنی اور مولانا عبید اللہ سندھی جیسے عظیم اکابر پہلی صف میں تھے۔ جبکہ تحریک پاکستان کی قیادت کی صف اول کو بھی علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی جیسے محدثین کی راہنمائی اور رفاقت میسر تھی۔ پاکستان بن جانے کے بعد اس کی نظریاتی اساس طے کرنے والی قرارداد مقاصد کی منظوری کے لیے دستور ساز اسمبلی کے اندر علامہ شبیر احمد عثمانی کی فیصلہ کن راہنمائی موجود تھی اور ایوان کے باہر تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کی قیادت متحرک تھی۔ حتٰی کہ پاکستان کا موجودہ دستور جب 1973ء میں مرتب و نافذ ہوا تو مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا عبد الحق اور مولانا شاہ احمد نورانی جیسے سرکردہ علماء کرام اس کے مرتبین میں شامل تھے۔
مولانا محمدصدیق مدنی نے مزید کہا کہ قومی سیاست میں راہنمائی کا کردار علماء کرام کا نہ صرف دینی فریضہ ہے بلکہ یہ ان کا تاریخی ورثہ بھی ہے جس سے انہیں کسی صورت میں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جمعیة علماء اسلام اسی ورثہ کی امین اور انہی روایات کی وارث ہے جو اپنی تمام تر کمزوریوں اور مبینہ کوتاہیوں کے باوجود حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کی جدوجہد کا تسلسل ہے۔