حکومت اردو کو ذریعہ تعلیم کیوں نہیں بناتی؟

Urdu

Urdu

تحریر : عتیق الرحمن

انسان کی فطرت ہے کہوہ گردوپیش کے احوال و اسباق سے سبق سیکھتا ہے اور ہر انسان کی پہلی درس گاہ اس کی ماں کی گود ہے اور ماں ،گھر، محلہ اور معاشرہ اور ملک کے ماحول سے انسان بہر طور بہتر سبق سیکھتا ہے۔انسان جو کچھ سبق اخلاقی اعتبارسے اپنے گردو پیش سے سیکھتا ہے اس کا اثر تادم زیست پر پر باقی رہتاہے۔ جس قدر بھی مشکل سے مشکل زبان اور رسو م و رواج معاشرہ ہوں وہ اس کو اپنی ابتدائی و مقامی زبان کے طورپر سرعت کے ساتھ سمجھنے اور اس میں بول چال کی استطاعت پیدا کرلیتا ہے۔ بدیہی بات ہے جب انسان بڑا ہوجاتاہے تو وہ اس زبان میں کوئی بھی سائنسی و ریاضی یا کسی بھی مشکل علم کی اصطلاح ہوکو سمجھ سکتاہے اگر اس کی زبان میں اس کو تعلیم دی جائے۔

تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں بھی اور آج بھی انسانی معاشرہ اگر ترقی یافتہ ہے یا ترقی پذیر ہے تو اس کے پس پشت میں اس کی مقامی و مادری زبان کا حصہ وافر موجود ہے کہ اس میں اس کو جو بھی تعلیم دی جائے گی وہ اس کو بآسانی سمجھ سکتاہے اوراس کی بدولت وہ علم و فن کی سخت سے سخت تر گھاٹیوں سے بھی گزرکر اقبال مندی حاصل کرلیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین ہو یا جاپان، ترکی ہو یا یورپ سبھی معاشی و معاشرتی طورپر تقدم حاصل کررہے ہیں تو اس کی پیچھے یہی راز پنہاں ہے کہ وہ اپنی مقامی زبان میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

تاریخ اسلام شاہد ہے کہ مسلمانوں نے اپنے عہد عروج میں علم و فن کے شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں کہ ان کی وجہ سے ہزار سال تک دنیا کے نصف سے زائد حصہ پر پرچم امن و آشتی بلند رہا۔ تاہم مرورزمانے کے ساتھ دنیا کی عیش و عشرت اور لہوو لعب کے مشاغل میں مصروف ہوجانے کی وجہ سے مسلم حکمرانوں نے علم و معرفت سے منہ موڑا تو ان کا اقبال روبہ زوال ہوا ۔نتیجتاً اسلامی ممالک انگریز و استعمار کے زیر تصرف آگئے اور استعماری قوتوں نے اپنے قبضہ کو طول دینے کے لیے مسلمان ملکوں کے نظام تعلیم کو ترجیحی بنیاد پر بدلا اور اس کے ذریعہ سے مسلم اقوام کو صدیوں سے اپنا فکری و نظری غلام بنالیا ۔

اب جب کہ برصغیر انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرچکا ہے کہ وہ انگریز دوصدیوں کی حکومت کرنے کے بعد راہ فرار اختیار کرگیا۔ مگر بدقسمتی ہے کہ ہندوستان نے تو اپنے ہاں ذریعہ تعلیم ہندی کو بناکر دنیا کی بہتر معاشی و معاشرتی ریاست باور کرالیا ہے تاہم پاکستان میں نظریاتی غلاموں نے یہاں کے نظام تعلیم کو انگریز کے وضع کردہ منہج کے مطابق باقی رکھا جس کی وجہ سے پاکستان دنیا میں بہتر مقام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔

موجودہ حکومت تبدیلی کا نعرہ لگا کر میدان عمل میں اتر چکی ہے اور اس تبدیلی کا دائرہ کار معاشی و معاشرتی میدانوں کے علاوہ تعلیم و صحت پر بھی محیط ہے تو اب ضروری ہے کہ حکومت جب ملک میں یکساں نظا م تعلیم رائج کرنے کا فیصلہ کرنا چاہتی ہے تو ایسے میں کونسی بات مانع ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان کے مطابق ملک پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور آئین کی دفعہ 251کے تحت بھی ملک کی قومی زبان اردو ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس ایس جواد خواجہ کے عدالتی فیصلہ کے مطابق ملک میں قومی زبان کو نا صرف نافذ کیا جائے بلکہ ملک میں جاری امیر و غریب کے لیے دہرے و متفرق نظام تعلیم کو ختم کرکے فی الفور اردوزبان کو تعلیمی زبان کے طورپر نافذ کیا جائے۔

Atiq ur Rehman

Atiq ur Rehman

تحریر : عتیق الرحمن
0313-5265617
atiqurrehman001@gmail.com