غیر قانونی تجاوزات کے خلاف ویسے تو ملک گیر سطح پر مہم جاری ہے لیکن کراچی میں تجاوزات کے ساتھ گھروں کے گرانے کے معاملات نے سیاسی رنگ و شدت اختیار کرلی ہے۔ ایک مہینے کے بے رحم آپریشن میں تجاوزات کے خلاف کاروائیاں کی گئیں ۔ کراچی جیسا شہر جو بلاامتیاز سب کیلئے روزگار فراہم کرتاہے وہاںایک مہینے میں لاکھوں افراد اپنے برسہا برس کے کاروبار، پتھاروں ، ٹھیلوں ، کیبن اور چھوٹے پیمانوں کے روزگار سے محروم ہوگئے ۔عوام میں بڑھتے اشتعال و احتجاج کو دیکھ کر ارباب اختیار کو ہوش آیاکہ سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کی جائے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے وزیر اعظم کو بریفنگ دی تو انہیں ہدایات ملیں کہ تجاوزات خاتمے کی احکامات پر اٹارنی جنرل کے ذریعے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کی جائے۔ اب عدلیہ فیصلے پر سندھ حکومت نے بھی پٹیشن دائر کردی ہے۔ تاہم مختلف سیاسی جماعتوں اور لسانی اکائیوںکی جانب سے اس الزام کی میئر کراچی نے سختی سے تردید کی ہے کہ وہ سیاسی انتقام لے رہے ہیں کہ ان کی جماعت کو ووٹ کیوں نہیں دیا گیا۔ میئر کا کہنا تھا کہ وہ سب کچھ سپریم کورٹ کے حکم پر کررہے ہیں اور سرکاری مشینری ان کے ساتھ ہوتی ہے۔
انہوں نے اپنی رپورٹ میں ڈسٹرکٹ ملیر اور کونسل ملیر کا بھی حوالہ دیاہے کہ عدم تعاون کی وجہ سے تجاوزات کے خلاف کاروائی نہیں کی جاسکی کیونکہ ضلعی انتظامیہ نے تعاون نہیں کیا ۔ حالانکہ یہاں بھی مخصوص لسانی اکائی سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف کاروائی کی جا رہی ہے۔اب میئر کراچی یہ کہہ رہے ہیں کہ تجاوزات کے بعد ملبہ اٹھانے اور خالی کرائی جانے والی جگہ پر متبادل ترقیاتی کام کروانے کے لئے انہیں فنڈز کی ضرورت ہے۔18جگہوں سے صرف ملبہ اٹھانے کے لئے انہوں نے20کروڑ روپے صوبائی حکومت سے مانگے ہیں۔ اہل کراچی کا خیال ہے کہ میئر سے تو کراچی کا کچر ا اٹھتا نہیںتو کیا اب وہ ملبے اٹھانے کو بھی سیاسی ایشو بنا ئیں گے۔اہل کراچی اب برہم ہیں کہ تجاوزات گرانے سے قبل یہ کیوں نہیں سوچا گیاکہ ملبہ کیسے اٹھے گا اور متبادل لائحہ عمل کیا ہونا چاہے ۔میئر کراچی کا کہنا ہے کہ شہریوں کے مکانات کے ایم سی نے نہیں بلکہ سندھ کنٹرول بلڈنگ اتھارٹی نے گرائے ہیں۔ جو صوبائی حکومت کے ماتحت ہے۔
دوسری جانب رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان کا کہنا ہے کہ تجاوزات گرانے کی آڑ میں غیر قانونی کام بھی کئے گئے ۔ یہاں اس بات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ میئر کراچی صرف من پسند افراد کو مختص جگہ میں متبادل کیبن فراہم کرسکتے ہیں۔گزشتہ مقامی حکومت میں مختلف اہم بازاروں میں سیاسی بنیادوں پر کیبن دیئے جانے کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ بیشتر علاقوں میں میئر کراچی کی جماعت کا سیاسی مینڈیٹ کم ہوتے ہوئے بعض جگہوں سے ختم ہوچکا ہے اس لئے اس موقع کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ اول توکراچی کے دل’ صدر ٹائون’ جیسے کاروباری علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں کیبن بنانا مشکل ہوگا ۔ تاہم دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ کراچی تجاوزات پر نظر ثانی کی دائر اپیلوں پر پر کس نوعیت کے اقدامات کرتی ہے۔
پاکستان ریلوے کی جانب سے 7 دسمبر سے کرایوں میں 20فیصد تک اضافے کو بھی مقامی تاجروں اور غیر مقامی شہریوں نے غیر مناسب اقدام قرار دیا ہے کہ ڈالر کی مسلسل بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے پہلے ہی مہنگائی ہے جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہواہے ۔ اب ریلوے کے کرایوں میں 20فیصد اضافے سے انہیں اضافی اخراجات کا بھی سامنا کرنا ہوگا ۔ کراچی سے لاکھوں کی تعداد میں غیر مقامی افراد اور مقامی تاجران سڑک کے غیر محفوظ سفر کے بجائے ریل کو ترجیح دیتے ہیں ۔ متوسط طبقہ ریلیف کا منتظر تھا کہ کرایوں میں کمی کی جائے گی کیونکہ یہ خبر سامنے آئی تھی کہ پاکستان ریلوے کی تاریخ میں سفری ٹکٹوں کی فروخت کا نیکا ریکارڈ قائم ہوا ہے، اور ترجمان ریلوے کا کہنا ہے کہ یکم دسمبر کو 6 کروڑ 55 لاکھ سے زائد کی ٹکٹیں فروخت ہوئیں اور 51610 ٹکٹوں کی فروخت سے سالانہ آمدن میں اضافہ متوقع ہے، صرف ای ٹکٹنگ سے 20 کروڑ روپے سے زائد آمدن ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ وزیر ریلوے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ 90 دن میں 2 ارب آمدن میں اضافہ کیا۔ لیکن کرایوں میں کمی کے بجائے غیر متوقع طور پر20فیصد تک اضافہ کردیا گیا جس سے براہ راست کراچی کی عوام متاثر ہونگے کیونکہ لاکھوں افراد کراچی سے اندرونی ملک سفر کے لئے ریلوے کا انتخاب کرتے ہیں۔
مہنگائی کی اس لہر میں اسٹاک مارکیٹ میں بھی مندی کا شدید رجحان دیکھا گیا ۔ کاروباری ہفتے کے آغاز پر ہی پاکستان اسٹاک مارکیٹ کاکاروبار شدید مندی کا شکار ہوگیااور ایک گھنٹے میں ہی انڈیکس میں 1074 پوائٹس کی کمی ہو گئی۔کاروباری ہفتے کے پہلے روز پاکستان اسٹاک مارکیٹ کے آغاز پر ہی مارکیٹ منفی زون میں چلی گئی اور کے ایس ای 100 انڈیکس میں 448 پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی۔ سرمایہ کار وں کے انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنے کے براہ راست اثرات اسٹاک مارکیٹ پر مرتب ہوتے چلے گئے اور اسٹاک مارکیٹ مسلسل مندی کا شکار رہی۔سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باعث مارکیٹ پر انتہائی بُرا اثر پڑ رہا ہے۔اس کی بنیادی وجوہات میں صدر پاکستان کے بیان کو بھی بڑی اہمیت دی گئی جب انہوں نے کہا تھا کہ عوام ” میڈ ان پاکستان ” خریدیں کیونکہ روپیہ دبائو کا شکار ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم کا بار بار اس بات کو دوہرانا کہ مشکلات کم نہیں ہوئیں بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوگا، قوم اس کے لئے تیار رہے ۔ حکومتی وزرا ء کے بیانات کی وجہ سے بھی سرمایہ کاروں میں منفی رجحان پیدا ہوا اور اسٹاک مارکیٹ میں محتاط رویہ اپنایا گیا۔
چھوٹے تاجران سے لے کر بڑے سرمایہ کاروں تک عدم اعتماد کی فضا قائم ہے ۔ مہنگائی اور معاشی بحران کی وجہ سے تمام طبقات زندگی براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں جہاں غریب اور متوسط طبقے کو گھر کے چولہے جلانے کے لالے پڑے ہوئے تھے وہاں لاکھوں افراد کے چھوٹے کاروبار متاثر و بند ہونے سے اہل کراچی شدید بے یقینی کا شکار ہیں۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ حکومت مہنگائی اور غربت کے خاتمے کے لئے پہلے موثر اقدامات کرتی ، تجاوزات کے خاتمے سے قبل متبادل روزگار کی منصوبہ بندی کی جاتی اور اہل کراچی کے لئے اُس پیکچ پر عمل درآمد نظر آتا جس معاہدے کے تحت ایم کیو ایم پاکستان اور کراچی کی عوام نے تحریک انصاف کو ”مینڈیٹ ”دیا تھا ۔ شہر کراچی مملکت کی معاشی شہ رگ ہے جو ریاست کو 70فیصد ریونیو دیتا ہے۔
ضروری ہے کہ کراچی کی عوام اور سرمایہ داروں کا اعتماد پہلے بحال کیاجائے۔ اہل کراچی کو سرکلر ریلوے کی بحالی کے لئے بھی سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد نئے چیلنجوں کا سامنا ہے کہ اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ؟۔کیونکہ ڈسٹرکٹ سینٹرل انتظامیہ نے قابضین کے خلاف کاروائی کا اعلان کردیا ہے۔لیکن انہیں شدید مزاحمت کا بھی سامنا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے چھوٹے بڑے کاروباری طبقے کا اعتماد مزیدبحال کیا جائے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں بے روزگاری اور معاشی مسائل پر پہلے سے منصوبہ بندی کی جائے۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کراچی کے لئے نقصان دہ ہو گی۔