وزیراعظم عمران خان جو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بھی ہیں ان کے قبل از وقت انتخابات کے بیان سے ملک کی سیاست میں ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے سابق وزیراعظم ، مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نوازشریف نے بھی کہا کہ ان کی جماعت قبل از انتخابات کے لیے تیار ہے اسی طرح دیگر سیاسی جماعتوں کیطرف سے اس بارے اظہار خیال کیا جا رہا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ملک میں قبل از وقت انتخابات ہونے کا امکان ہے پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک میں بھی قبل از وقت انتخابات ہونے کی روایات موجود ہے لیکن حکومت بننے کے تین چار ماہ بعد ہی برسراقتدار جماعت کی طرف سے قبل از وقت انتخابات کی بات عجیب لگتی ہے پاکستان تحریک انصاف مرکز کے علاوہ خیبر پختونخواہ کے علاوہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی برسراقتدار ہے بلوچستان میں مخلوط حکومت اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کو پنجاب میں حکومت میں ہونے کے باوجود مشکلات درپیش ہیںاس کیوجہ یہ ہے پنجاب اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کی تعداد میں بہت کم فرق ہے جس سے پی ٹی آئی کو مرکز کیساتھ ساتھ پنجاب میں بھی حکومت چلانے خاص طور قانون سازی میں مشکل درپیش ہے۔
اس کیساتھ پی ٹی آئی کی حکومت کو جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا مسئلہ بھی ہے اگر جنوبی پنجاب کا صوبہ بنتا ہے تو پی ٹی آئی کو پنجاب میں اپنی ھکومت قائم رکھنا مشکل ہوگا کیونکہ پنجاب اسمبلی میں حکومت کیساتھ شامل ارکان اسمبلی کی زیادہ تعداد جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتی ہے جنوبی پنجاب بننے کی صورت میں یہ ارکان اسمبلی موجودہ پنجاب اسمبلی سے کم ہو جائینگے دوسری طرف جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں میں بھی جنوبی پنجاب صوبہ بنانے پر دو رائے ہیں پی ٹی آئی کے اندر بھی کچھ لوگ بہاولپور صوبہ بنانے کے حق میں اور کچھ لوگ ملتان کو جنوبی پنجاب کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں بحر حال جنوبی پنجاب کا صوبہ بننے سے ملک کے سیاسی حالات میں بہت زیادہ تبدیلیاں متوقع ہیں جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں اس کے لیے قبل حکومت از وقت انتخابا ت کا فیصلہ کر سکتی ہے تاہم ابھی اس بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے کے مسئلے کے علاوہ بھی پنجاب میں پی ٹی آئی کی پوزیشن کمزور ہے۔
خاص طور پر سنٹرل پنجاب لاہور،شیخوپورہ،گوجرانوالہ،سیالکوٹ ودیگر اضلاع میں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کی تعداد بہت کم ہے اس کا مطلب یہ ہے پنجاب خاص طور پر سنٹرل پنجاب میں پی ٹی آئی کی پوزیشن بہت کمزور ہے لازمی طور پر پارٹی قیادت اور سربراہ عمران خان اس بات کا بخوبی آگاہ ہونگے اس کے لیے پارٹی قیادت کی کوشش ہوگی کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تنظیم کا مضبوط بنایا جائے تاکہ اگلے الیکشن میں اسے کامیابی حاصل کرنے میں آسانی ہو کیونکہ پنجاب میں اکثریت کیساتھ کامیابی سے مرکز میں بھی آسانی کیساتھ حکومت تشکیل دی جاسکتی ہے اس وقت سنٹرل پنجاب کے صدر عمر ڈار ہیں جو چند ماہ پہلے ہی اس عہدے پر نامزد ہوئے ہیں عمر ڈار کا تعلق سیالکوٹ سے ہے یہ عثمان ڈار کے بڑے بھائی ہیں جو 2 دفعہ سابق وزیرخارجہ خواجہ آصف کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ چکے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوسکے عثمان ڈار اس وقت امور نوجوانان کی وزارت میں وزیراعظم کے مشیر ہیں یہ حسن اتفاق ہے کہ صدر مملکت عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان،وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی طرح عثمان ڈار اور ان کے بھائی عمرڈار کا نام بھی عین سے شروع ہوتا ہے دیکھا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں عین سے شروع ہونے والے نام کے لوگوں کی اکثریت ہے جیسے گورنرسندھ عمران اسماعیل، اسد عمر، علیم خان اور دیگر لوگ شامل ہیں۔
دراز قد خوبرو عمر ڈار پی ٹی آئی سنٹرل پنجاب کے صدر ہیں وہ کسی ہیرو سے کم خوبصورت نہیں اگر سیاست میں نہ ہوتے تو فلمی دنیا کے کامیاب ہیرو ہوتے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مشہور زمانہ پنجابی فلم چوڑیاں کے ہدایتکار سید نورعمر ڈار کے قریبی دوست ہیںعمر ڈار کا خاندان بنیادی طور پر کاروبار سے وابستہ ہونے کے باوجود شروع سے ہی سیاسی سماجی سرگرمیوں میں بھی معروف ہے ان کے چچا سجاد ڈار مرحوم ائر مارشل اصغرخان کی تحریک استقلال سے وابستہ تھے اور مرتے دم تک اسی جماعت میں رہے عمر ڈار کے والد امتیاز الدین ڈار مرحوم ایک نہایت وضع دار، اصول پسند اور مدبر شخصیت تھے وہ قائداعظم کی سیاست کے پیروکار تھے قائداعظم کی محبت میں انھوں نے لاکھوں روپے خرچ کرکے جناح ہائوس بنایا جہاں قائداعظم اور تحریک پاکستان کی یادگار تاریخی تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں۔
ان دنوں جناح ہائوس سیالکوٹ ڈار برادران اور تحریک انصاف کی سرگرمیوں کا مرکز ہے ڈار برادران کے والد امتیاز الدین ڈار بطور ناظم تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن بھی خدمات انجام دے چکے ہیںان کا انتخاب بھی سیالکوٹ کی سیاسی تاریخ کا ایک یادگار واقعہ ہے تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کی ناظم شپ کے لیے پانچ امیدواروں کے درمیان مقابلہ تھا مسلم لیگ ن بین الاقوامی شہرت یافتہ M.B. بیٹ بنانے والے ادارے ملک سپورٹس کے ملک سرفراز کی حمایت کررہی تھی جبکہ صوبائی وزیر اعجاز احمد شیخ سمیت امتیاز الدین ڈار بھی امیدوار تھے سیاسی تجزیہ کاروں کیمطابق ملک سرفراز ، اعجاز احمد شیخ میں سے کسی ایک کی کامیابی کا امکان تھا لیکن امتیاز الدین ڈار نے اپنی کامیاب حکمت عملی کیساتھ الیکشن جیت کر تمام سیاسی تجزیہ کاروں کے اندازوں کو غلط ثابت کردیا بطور ناظم ٹی ایم اے سیالکوٹ امتیاز الدین ڈار نے شاندار خدمات انجام دیں اب ان کے صاحبزادے عثمان ڈار اور عمر ڈار تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔
عمر ڈار کے کندھوں پر اس وقت بہت بھاری ذمہ داری ہے سنٹرل پنجاب میں جہاں پی ٹی آئی کی پوزیشن کمزور ہے یہاں پارٹی کو مضبوط اور فعال بناننے کے لیے پی ٹی آئی کے کپتان عمران خان نے عمر ڈار کو صوبائی صدارت کی ذمہ داری سونپی ہے عمر ڈار کے لیے یہ عہدہ جہاں ایک اعزاز کی بات ہے تو وہاں یہ اہم ذمہ داری کسی بہت بڑے چیلنج سے کم نہیں ان کے پاس اتنے بڑے عہدے کے لیے زیادہ تجربہ تو نہیں لیکن وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کیساتھ محنت اور جدوجہد سے آگے بڑھنے کے جذبے سے سرشار ہیںامید رکھنی چاہیے کہ وہ اس عہدے پر رہتے ہوئے پی ٹی آئی پنجاب کو مضبوط اور فعال بنا کر پارٹی کے چیئرمین،اپنی قیادت اور کارکنوں کے اعتماد پر پورا اتریں گے۔