شراب اور نشہ آور اشیاء معاشرتی آفت ہیں جو صحت کو خراب خاندان کو برباد،خاص وعام بجٹ کو تباہ اور قوت پیداوار کو کمزور کرڈالتی ہے۔ان کے استعمال کی تاریخ بھی کم وبیش اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تہذیب کی تاریخ یہ اندازہ لگانا تو بہت مشکل ہے کہ انسان نے ام الخبائث کا استعمال کب شروع کیا اوراس کی ایجاد کا سہرہ کس کے سر ہے ؟ تاہم اس برائی نے جتنی تیزی سے اور جتنی گہرائی تک اپنی جڑیں پھیلائی ہیں اس کا ندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ تمام عالمی مذاہب نے اس کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے۔
دین ِ اسلام میں اللہ تعالی نے شراب کے استعمال کو حرام قرار دیا ہے اور رسول اللہ ۖ نے اس کے استعمال کرنے والے پر حد مقرر کی ہے یہ سب اس مقصد کے تحت کیا گیا کہ نشہ آور چیزوں سے پیدا شدہ خرابیوں کو روکا جائے ا ن کے مفاسد کی بیخ کنی اور ان کے مضمرات کا خاتمہ کیا جائے۔کتب احادیث وفقہ میں حرمت شرات اور اس کے استعمال کرنے پر حدود وتعزیرات کی تفصیلات موجود ہیں۔ اور بعض اہل علم نے شراب اور نشہ اور اشیا ء پر مستقل کتب تصنیف کی ہیں ۔حکومت اور اپوزیشن کی مخالفت پر ملک میں شراب پر مکمل پابندی کا حکومتی اقلیتی رکن کا بل مسترد کر دیا حکمران جماعت اور حکومت اس معاملے میں ایک پیج پر نہیں تھی۔اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے بھی بل کی مخالفت کی۔اپوزیشن ڈپٹی سپیکر کی طرف سے ایجنڈے کو بلڈوز کرنے کے معاملے پر احتجاجاً واک آؤٹ کر گئی اجلاس کے دوران کنفیوڑن چھائی جا رہی انسداد تشدد و انتہاء پسندی کے بارے قومی مرکز کے قیام کا بل بھی مسترد کر دیا گیا۔
اسی طرح معذور افراد کے بارے میں آئین میں ترمیم کا بل بھی مسترد ہو گیا منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی صدارت میں ہوا۔پاکستان تحریک انصاف کے اقلیتی رکن ڈاکٹر رمیش کمار وینکوانی نے تمام مذاہب کے افراد سمیت ملک میں شراب پر مکمل پابندی کا بل پیش کیا ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ ہندو مذہب میں بھی شراب پر پابندی ہے اس حوالے سے آئین میں ترمیم ضروری ہے ڈپٹی سپیکر نے حکومت سے بل بارے رائے لی پارلیمانی سیکرٹری داخلہ ملیکہ بخاری نے بل کی مخالفت کی اورکہا کہ یہ بل پہلے بھی آیا تھا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ(ن) ،پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے بل کی مخالفت کی۔متحدہ مجلس عمل نے بل کی حمایت کرتے ہوئے واضح کہا کہ ان کی طرف سے بھی یہ بل لایا گیا تھا اور ایم ایم اے کی خاتون اقلیتی رکن اس کی محرک تھیں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے رائے شماری کروائی متذکرہ حکومت اپوزیشن کی تینوں بڑی جماعت کی مخالفت پر بل مسترد ہو گیا۔ایم کیو ایم کی رکن کشور زہرا نے معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے آئین میں ترمیم کا بل پیش کیا یہ بل بھی کثرت رائے کی بنیاد پر مسترد کر دیا گیا حکومتی رکن ریاض فتیانہ کے پاکستان نفسیات کونسل کے قیام، ایم ایم اے کے رکن مولانا عبد الاکبر چترالی کے انتخابات ایکٹ 2017ء میں ترامیم کے بلز متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کر دیئے گئے قومی احتساب بیورو آرڈیننس میں ترمیم سے متعلق ایم ایم اے کی رکن عالیہ کامران کا بل کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا اجلاس کے دوران شراب پر مخالفت کے بل کی تحریک پر دوبارہ رائے شماری کا مطالبہ کیا اس موقع پر ڈپٹی سپیکر کنفیوڑ دکھائی دیئے اپوزیشن کی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ارکان ایجنڈے کو بلڈوز کرنے کا الزام کرتے ہوئے احتجاجاً واک آؤٹ کرگئے۔عالیہ کامران کے لیگل پریکٹیشنرزاینڈ بار کونسلز ایکٹ میں ترمیم کا بل بھی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔
اسی طرح مولانا عبدالاکبر چترالی کے آئین میں ترمیم کے بل کو بھی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ، روبینہ خورشید عالم نے انسداد تشدد و انتہاء پسندی کی بابت قومی مرکز کے قیام کے لیے احکام وضع کرنے کا بل پیش کیا وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی نے بل کی مخالفت کی کثرت رائے سے اس بل کو بھی مسترد کر دیاگیا۔ڈاکٹر رمش کمار گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں شراب پر پابندی کے حوالہ سے کام کر رہے ہیں۔انہوںنے مختلف عدالتوں میں بھی پٹیشن دائر کر رکھی ہیں۔اب قومی اسمبلی میں انہوں نے بل پیش کیا جو پاس نہیں ہو سکا،پاکستان تحریک انصاف کے اقلیتی رکن ڈاکٹر رمیش کماراپنی ایک تحریر میں شراب کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ”دنیا بھر کے مذاہب نے شراب نوشی کی سختی سے ممانعت کی ہے، افسوس کی بات ہے کہ پاکستان جو کہ اسلامی جمہوریہ ہے،شراب کی خرید و فروخت غیرمسلموں کے نام پر کرنے کی اجازت دیتا ہے،ملکی آئین کے آرٹیکل 37hکے مطابق ملک بھر میںشراب پر پابندی ہے ماسوائے غیرمسلموں کے مذہبی تہواروں کے نام پر جس پر پاکستان بھر میں بسنے والے ذی الشعور غیرمسلم شہریوں کو شدید تحفظات ہیں کیونکہ ہر مذہب نہ صرف شراب نوشی کی مکمل ممانعت کرتا ہے بلکہ شراب نوشی کے معاشرے پر منفی اثرات سے بھی اپنے ماننے والوں کو خبردار کرتا ہے۔
اسلام میں تو شراب کو ام الخبائث یعنی تمام برائیوں کی ماں قرار دیتے ہوئے شراب نوشی کو گناہ کبیرہ میں شمار کیا ہے، اسلام میں شراب کے کاروبار کی کسی صورت اجازت نہیں، دنیا کے تمام دیگر مذاہب بھی بنی نوع انسانیت کی بھلائی کیلئے دیئے گئے احکامات پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں، تمام مذاہب کی تعلیمات کا ایک ہی مقصد ہے کہ انسان خدا کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ایک مفید اور کارآمد شہری ثابت ہو جبکہ شراب نوشی کرنے والاخدا کی نافرمانی کرکے معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔میں کئی دفعہ اپنے اس موقف کا اعادہ کرچکا ہوں کہ ایک پرامن معاشرے کا دارومدار دیگر تمام مذاہب کے ماننے والوں کا احترام کرنے میں ہے ،افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب کے گھناونے کاروبار کو غیرمسلموں سے منسوب کردیا گیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ شراب خانوں کی سرکاری اجازت غیرمسلموں کے نام پر دینا توہین مذہب کے ذمرے میں آتا ہے،میں بطور پارلیمنٹرین نہ صرف قومی اسمبلی میں معاشرے سے شراب کی نحوست ختم کرنے کیلئے قانون سازی کی کوشش کررہا ہوں بلکہ میں نے سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی بذاتِ خود پیش ہوکر شراب کی غیرمسلموں کے نام پر خریدوفروخت کی روک تھام یقینی بنانے کیلئے پٹیشن دائر کی ہیں، پاکستان میں بسنے والے ہر غیرمسلم کو جہاں ایک طرف ترقی کے مواقع میں شرکت نہ دینے کی شکایات عام ہیں وہیں انکے خلاف نفرت انگیز جذبات شراب فروشی کے نام پر بھڑکائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں غیرمسلم کا نام آتے ہی جو پہلا تصور ذہن میں آتا ہے وہ شراب خانوں سے متعلق ہے جو تمام امن پسند پاکستانیوں کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔مغربی معاشروںکو بھی شراب کے ناسور سے پاک کرنے کیلئے وہاںٹیمپرنس موومنٹ کے نام سے سماجی جدوجہدعرصہ طویل سے جاری ہے، انصاف کا تقاضا ہے کہ شراب نوشی کسی مذہب کے نام پر نہ کی جائے،پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس لئے غیرمسلموں کو بھی اسلامی احکامات کے مطابق شراب نوشی کی اجازت نہیں ہونی چاہئے یا پھر بھی اگر کوئی اپنی مرضی سے شراب کے تمام تر نقصانات جانتے ہوئے بھی شراب نوشی کرتے ہوئے اپنا ٹھکانہ جہنم بنانا چاہتا ہے تو اسے غیرمسلم مذہب کا سہارا نہیں فراہم کرنا چاہئے،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب پر مکمل پابندی لگائی جائے اورمذہب کا نام غلط طور پر استعمال کرکے خداوندِ تعالیٰ کو ناراض نہ کیا جائے۔”
شراب پر پابندی کا بل قومی اسمبلی سے مسترد ہونا حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث ہے،ایک اسلامی ملک جس کے آئین میں شراب سمیت تمام نشہ آور چیزوں کے استعمال اور خرید و فروخت کو ممنوع قرار دیا گیاہے ، اس کی اسمبلی میں ایک ہندو رکن اسمبلی ڈاکٹر رمیش کی طرف سے شراب پر پابندی کا بل پیش ہونے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کا اسمبلی سے واک آؤٹ کرجانا اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات سے انحراف کا اس سے بڑا مظاہر ہ اور کیا ہوسکتاہے کہ ایم ایم اے کے ارکان کے علاوہ تمام جماعتوں کے ممبران اسمبلی نے اس بل کی حمایت کرنے کے بجائے اسمبلی اجلاس ہی سے واک آؤٹ کر دیا۔قومی اسمبلی میں شراب پر مکمل پابندی کا بل مسترد ہونے پر پاکستانی قوم کو تشویش ہے۔ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کومدینہ جیسی فلاحی اور پاکیزہ ریاست بنائیں گے تو دوسری طرف حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں شراب پر مکمل پابندی کے خلاف بات کرنا شرمناک فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
شراب تمام مذاہب میں حرام ہے، اقلیتیں بھی شراب پر پابندی چاہتی ہیں مگر بد قسمتی سے کچھ حکومتی اور اپوزیشن کے لوگ نہیں چاہتے کہ شراب پر پابندی لگے۔ قوم کو بتایا جائے کہ شراب کی اجازت دے کر پاکستان کو مدینہ جیسی پاکیزہ ریاست کیسے بنایا جائے گا؟ جن اقلیتوں کے لیے شراب کو جائز قرار دینے کی کوششیں ہورہی ہیں وہ طبقہ خودہی شراب کی بندش کے حوالے سے قومی اسمبلی میں بل جمع کروارہا ہے،اسلامی جمہوریہ پاکستان کو یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر چلنے کی کبھی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی،ہم ملک کے اسلامی تشخص کے خلاف ہونے والی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ یہود و نصاریٰ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سازشوں میں مصروف ہیں،دنیا کو اسلامی ایٹمی ریاست کاوجود برداشت نہیں ہورہا،ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے اللہ اور رسول ۖ کے احکامات کے مطابق چلایا جائے، اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست میں صرف اور صرف اللہ کا نظام ہی رائج ہوسکتا ہے،پاکستان اس وقت نازک صورت حال سے دوچار ہے۔ قومی اسمبلی میں ملک کے اسلامی تشخص کے خلاف ہونے والی کسی بھی قانون سازی کو پاکستانی قوم کامیاب نہیں ہونے دیں گے،بانی پاکستان نے قرآن کو ملک کا آئین قرار دیا تھا اورایسی ریاست بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جہاں مسلمان اپنی زندگی کو اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق گزار سکیں،محب وطن پاکستانی کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والے ملک کو سیکولر ریاست نہیں بننے دے گی۔