وطن عزیز پاکستان میں شعبہ تعلیم کی حالت زار پر سینکڑوں بار لکھا جا چکا ہے خاص طور پر گزشتہ تین چار دہائیوں میں جب سے پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیمی اداروں کے قیام تیزی سے ہوا اُس وقت سے نصاب تعلیم اور زریعہ تعلیم پر بڑا کچھ لکھنے کے ساتھ ساتھ ہر دور کی حکومت نے کمیٹیوں کے بنانے کا لا متناہی سلسلہ بھی جاری رکھاہواہے بڑے بڑے ہوٹلوں میں ورکشاپس اور سیمینار کے انعقاد کا واحد مقصد یہ رہا کہ وطن عزیز پاکستان میں زریعہ تعلیم اور نصاب تعلیم کو ن سا ہو ؟وقت گزرتا گیا کوئی بھی حکومت واضح پالیسی بنا کر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی ہمارے ہاں ایک تو وہ ادارے قائم ہیں جو مکمل طور پر سرکار (گورنمنٹ )کے زیر اثرہیں جہاں نصاب اور زریعہ تعلیم بارے آج تک طے نہیں ہو سکا کہ ابتدائی جماعتوں میں کیا اختیار کیا جائے کبھی انگریزی اور کبھی اردو چند سال کے وقفوں کے بعد نئی پالیسی بنا کے وقتی طور پر عمل درآمد بھی کروا لیا جاتا ہے۔
اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ اور نئی عمارتوں کی تعمیر بھی تعلیم کے شعبہ میں بے یقینی کی فضا کو کم نہیں کر سکی سابقہ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کی جانب سے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی ملازمت کے لیے شفاف بھرتی کی پالیسی اور تعلیم کے شعبہ میں خطیر فنڈز کی فراہمی مسائل میں واضح کمی کا سبب بھی نہ بن پائی ابھی بھی دور دراز کے علاقوں میں بوگس سکولوں کا انکشاف انتہائی حیرت کا سبب بن رہا ہے ذہین بچوں کے لئے سابقہ حکومت کی جانب سے لیپ ٹاپ اور اسکالر شپ کی تقسیم ایک اچھا اقدام تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصاب تعلیم اور زریعہ تعلیم پر بھی بھر پور توجہ کی ضرورت تھی پرائیویٹ سیکٹر کی بات کی جائے تو یہاں تین قسم کے ادارے نظر آتے ہیں جو تعلیم کو عام کرنے کے عزم کے ساتھ لاکھوں کروڑوں کما رہے ہیں پہلے نمبر پر وہ پرائیویٹ سکول ہیں جو گلیوں محلوں میں ایک یا دو کمروں پرمشتمل ہیں زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو یہ سکول پانچ سو سے کم پر تعلیم دے رہے ہیں جہاں کے اساتذہ کی تعلیم بھی مڈل یا میٹرک تک ہوتی ہے دوسرے وہ پرائیویٹ ادارے ہیں جہاں کی فیس ایک ہزار سے دو ہزار تک ہے جہاں کے پڑھانے والے اساتذہ کی تعلیم میٹرک اور ایف اے تک ہوتی ہے۔
یہ ادارے چار پانچ کمروں پر مشتمل گھروں کو کرایہ پر حاصل کر کے کھولے گئے ہیں تیسری قسم کے جو ادارے ہمارے ہاں موجود ہیں وہ بڑی بڑی کوٹھیوں کو کرایہ پر حاصل کر کے کھولے گئے ہیں جنکی فیس دو ہزار سے شروع ہوکر آٹھ دس ہزار تک ماہانہ ہے اِن اداروں نے پبلسٹی کے زریعے عوام کی توجہ حاصل کر رکھی ہے اِن سب اقسام کے تعلیمی اداروں میں نصاب تعلیم اور زریعہ تعلیم اپنا اپنا ہے کاغذوں میں درج اساتذہ کی تنخواہیں اور بچوں کی سہولیات کو دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ زمین پر جنت مل رہی ہے لیکن حقیقت بلکل مختلف ہوتی ہے ،سانچ کے قارئین کرام !سال 2018کے اپریل میں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے پرائیویٹ سکول کے طلبہ سے گرمیوں کی تعطیلات میں فیس وصول نہ کرنے کے حکم کے بعد پاکستان بھر میں والدین کی جانب سے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو جہاں پزیرائی حاصل ہوئی وہیں پرائیویٹ سکول مالکان کی جانب سے ہزار دلیلوں کے ساتھ کیس کو اعلی عدالت میں لے جانے کا بھی سنا گیا ماہ مئی میں پشاور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے بھی والدین کی جانب سے کیے گئے کیسوں میں اِس قسم کے فیصلے ہوئے راقم الحروف نے اُن دنوں میں اپنے قارئین کرام کو ان فیصلوں کی تفصیل اور عوامی ردعمل خاص طور پر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے طلبہ کے والدین سے آگاہ کیا۔
گرمیوں کی سکول تعطیلات میں فیس وصول نہ کرنے کے فیصلہ کو وطن عزیز کے طول وعرض میں پزیرائی حاصل ہوئی پھر یہ کیس سپریم کورٹ پہنچا جہاں مختلف سماعتوں کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے دیے گئے ریمارکس کو میڈیا میں نمایا ںکیا گیا جس پر طلبہ کے والدین میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑتی رہی کہ وہ گرمیوں کی تعطیلات کی سکول فیس سے بچوں کوسیر کروائیں گے بہت سے والدین کو راقم جانتا ہے جنھوں نے ملاقات یا فون کے زریعے اس اقدام کو قابل تعریف قرار دیا اور گرمیوں کی تعطیلات کی فیس بھی جمع نہ کروائی ماہ اگست کے ابتدئی دنوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد اُنھی والدین کو گرمیوں اور ماہ اگست کی فیس سکول مالکان کو ادا کرنا پڑی جو عدالتی فیصلوں پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے پرائیویٹ سکول مالکان کسی بھی طالب علم کوماہانہ ٹیسٹ میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتے جب تک ان کے واجبات کلیئر نہ ہوجائیں گزشتہ روز سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت ہوئی جو کہ انہی معاملات کو لیے ہوئے تھا اس کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے جو حکم دیا اُس نے پھر سے والدین کو متوجہ کر لیا ہے ایک معتبر اخبار کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے سکول فیس کیس میں لاہور گرائمر اور بیکن ہائوس سکول کے اکائونٹس منجمد کرنے کا حکم دے دیا اورغلط آڈٹ رپورٹ پیش کرنے پر سکول کے نمائندے کو گرفتار کرا دیاسپریم کورٹ نے تمام نجی سکولوں کی فیسوں میں کمی کا حکم بھی دے دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جن سکولوں نے موسم سرما تعطیلات کی فیس لی وہ 50 فیصد واپس کریںدوسری صورت میں آئندہ فیس میں لی گئی اضافی فیس ایڈجسٹ کریںچیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے سکول فیس کیس کی سماعت کی،عدالت مین بیکن ہائوس اور لاہور گرائمر سکول کی آڈٹ رپورٹ جمع کرادی گئی،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سی سی او اور ڈائریکٹر کو 62 ملین 2017 میں ادا کئے گئے ، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کل 512 ملین تنخواہیں اداکی گئیں 5 سال میں 5.2 بلین تنخواہیں ادا کی گئیں،چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ان سکولوں نے یورینیم کی دکانیں لی ہیں یاسونے کی ،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تنخواہوں کے علاوہ دیگر سہولتیں الگ ہیں،چیف جسٹس ثاقب نثار نے سکول کی جانب سے غلط رپورٹ پیش کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اورحکم دیا کہ پکڑ لیں اس کو اور ایف بی آر کے حوالے کردیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بچوں کو دو روپے کا ریلیف نہیں دے سکتے،عدالت نے ایف آئی اے کو لاہورگرائمر اور بیکن ہائوس سکول کے اکائونٹس منجمد کرنے کا حکم دیدیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت کی کہ ایف بی آر دونوں سکولوں سے متعلق تحقیقات کرے،کرائے کی کوٹھیوں میں سکول کھولے گئے ہیں،ایک ایک کمرے کے سکول سے اتناپیسہ بنایا جارہاہے ،سکول نہیں چلا رہے اب یہ صنعتکار بن گئے ہیں ،نجی سکولوں کی وکیل عائشہ حامد نے کہا کہ تمام سکول 8 فیصد فیس کم کرنے کو تیار ہیںچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 8 فیصد تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف والی بات ہے،20 سال کا آڈٹ کرایاتو نتائج بہت مختلف ہوں گے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سکولوں نے اپنی آڈٹ رپورٹس میں غلط اعداد دیئے،ڈائریکٹرزکیسے 83 ،83 لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں۔وکیل نجی سکول عائشہ حامد نے کہا کہ نجی سکولوں نے 764 ملین ٹیکس ادا کیا ہے کہ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے بہت ٹیکس دیا ہوگالیکن اس کا طالب علم کو فائدہ نہیںاس کا فائدہ تب ہو گاجب فیس کم ہو گی،چیف جسٹس نے کہاکہ بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے ،عدالت والدین کا کرداراداکرے گی۔چیف جسٹس نے تمام نجی سکولوں کی فیسوں میں کمی کا حکم بھی دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن سکولوں نے موسم سرما تعطیلات کی فیس لی وہ 50 فیصد واپس کریںدوسری صورت میں آئندہ فیس میں لی گئی اضافی فیس ایڈجسٹ کریں،چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ ہم طے کریں گے کتنی فیس بڑھنی ہے۔ جس نے سکول بند کرنے کی کوشش کی اس کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو گی۔ صرف 5 فیصد اضافہ ٹھیک ہے اس سے زیادہ اضافہ ریگولیٹر طے کرے گاعدالت نے کیس کی مزید سماعت 2 ماہ کیلئے ملتوی کر دی گئی۔