اسلام آباد (جیوڈیسک) وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ حکومت کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس جانے کی کوئی جلدی نہیں ہے، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے پر امریکا اور آئی ایم ایف کے خدشات دور کردیئے گئے ہیں۔
سعودی اخبار ‘عرب نیوز’ کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیر خزانہ نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ روپے کی قدر میں کمی آئی ایم ایف کے کہنے پر کی گئی۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کو آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کی کوئی جلدی نہیں ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں رکاوٹ کی بنیادی وجہ اصلاحات کی رفتار تھی ۔ اگر آپ بہت تیزی سے اصلاحات اور ایڈجسٹمنٹ کرنے کی کوشش کریں تو آپ معیشت کو تباہ کردیں گے اور یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کا مقصد یہ ہے کہ جب ہمیں اس بات کا یقین ہو کہ پاکستان کے بہترین مفاد میں کسی پروگرام کا خاکہ طے پاگیا ہے تو آئی ایم ایف کے پروگرام پر دستخط کردیں گے۔
وزیر خزانہ اسد عمر نے بتایا کہ دوست ممالک کی طرف سے رقم کی فراہمی اور ابتدائی 100 دنوں میں حکومت کے معاشی اقدامات کی بدولت ہونے والی بچت رواں مالی سال کے دوران معیشت کو چلانے میں مدد دے گی۔
ساتھ ہی انھوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت کے معاشی اقدامات کا نتیجہ 6 سے 7 ارب ڈالر کی بچت کی صورت میں نکلا ہے۔ اس کے علاوہ اکتوبر میں سعودی عرب کے ساتھ 6 ارب ڈالر کے پیکج پر بھی اتفاق ہوا ہے جبکہ چین اور متحدہ عرب امارات سے بھی امداد ملنے کی توقع ہے، تاہم انھوں نے چین اور امارات سے متوقع پیکیجز کی تفصیل نہیں بتائی۔
پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) سے متعلق سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ سی پیک معاہدوں میں تبدیلی خارج از امکان نہیں ہے، لیکن اگر شفافیت کا سوال ہے تو شفافیت موجود ہے اور چین کے ساتھ معاہدوں پر بہت دیکھ بھال کر وضع کیے گئے قواعد و ضوابط کے مطابق دستخط کیے گئے تھے۔
اسد عمر نے بتایا کہ پاکستان نے امریکا اور آئی ایم ایف کو سی پیک سے متعلق خدشات پر پریزینٹیشن دی، ان کا ساتھ ڈیٹا شیئر کیا اور انھیں مطمئن کردیا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سی پیک پورٹ فولیو میں نئے منصوبے شامل کیے جائیں گے جن میں کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن کی تنصیب اور خصوصی صنعتی زونز کے قیام کے منصوبے بھی شامل ہیں۔
ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم بہت کم ہے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ تعمیری تجارتی مذاکرات کے لیے تیار ہے ، لیکن یہ یک طرف تعلق نہیں ہوسکتا۔