بھارتی سرکار اچھی طرح سے جانتی ہے کہ پاکستان اسکی ”ماسی”کا گھر نہیں اور نہ ہی جنرل قمر جاوید باجوہ اس کے ”ماسٹر ”یعنی خالو جان ہیں کہ وہ بھارتی فوج کا پاکستان کی سرحد پار کرنے پر ”دیدہ ودل فرش راہ ”ہوں گے بلکہ وہ اسے فرش پر ایسا الٹا بچھائیں گے کہ دیدے اور دل دونوں باہر آجائیں گے ۔حکومت پاکستان اور بالخصوص وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ہر ممکن کو شش کی کہ بھارت کے ساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات قائم کئے جاسکیں تاکہ خطے میں پرامن ماحول کی فضا پیدا ہوسکے اور دونوں ممالک کی عوام خوشحال ماحول میں اپنی زندگی کے دن گزار سکیں ۔ایسے ہی معاملات پاک فوج کی طرف سے دیکھنے سننے کو ملے کہ پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باوجوہ اور ان کے رفقاکار نے حتیٰ ا لامکان کوشش کی کہ بھارت کی طرف سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا جایا تاکہ سرحدوں پر امن قائم کیا جاسکے ۔مگر کم ظرف ہندئو ذہنیت نے پاک فوج کی اس پیشکش کو غالباًبزدلی سمجھتے ہوئے گیڈر بھبھکیوںسے کام لینا شروع کر دیا جس کا مجبوراًپاک فوج کو جواب دینا پڑا ۔بھارت نے شروع دن سے پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کو اپنا یا اور پھر بتدریج اس میں اضافہ کرتا گیا ۔بھارت کی انتہا پسند ہندئو تنظیمیں شبانہ روز پاکستان کا امن تباہ کرنے اور دہشت گردی کو فروغ دینے میں مصروف کار ہیں بالخصوص بھارت کی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس جس کی عسکری تربیت پر کھربوں روپیہ استعمال میں لایا جاچکا ہے ۔مکتی باہنی کی طرز پر عمل میں لائی گئی ۔نریندر مودی اس تنظیم کے بنیادی رکن ہیں اور اس تنظیم سے تربیت یافتہ ہیں یہی وجہ ہے کہ جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو اس صوبے میں مسلمانوں پر بے پنا تشدد کیا گیا ۔انکی املاک کو جلاکر خاکستر کردیا گیا یہاں تک کہ مسلمانوں کو بھی زندہ جلایا گیا ،لاکھوں مسلمانوں کو بے گھر اور بے یارومدد گار کر دیا گیا۔
مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کے خلاف انکے دلوں میں جو حسرتیں ہیں وہ حسرتوں تک ہی محدود رہ جائیں گی اس لیے کہ پاک افواج بھارتی حکمرانوں اور بھارتی فوج کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہے جسے عبور کرنا بھارتیوں کے بس کی بات نہیں ۔بطور وزیراعظم مودی نے اپنی روایت قائم رکھتے ہوئے جون 2015میں ایک بے ہودہ بیان داغ دیا کہ اگر خطرہ ہوا تو پاکستان پر حملہ کردیں گے ماضی میں اس قسم کے بیانات آتے رہے ہیں جیسا کہ بھارتی آرمی چیف جنرل شرمانے شراب کے نشے میں دھت یہ فرمادیا کہ ہم پاکستان کو چھ گھنٹوں میں فتح کر لیں گے مگر جب نشہ اتراتو پتہ چلا کہ دہلی سے پاکستان کا راستہ آٹھ سے دس گھنٹے کا ہے لہذا ایسے بیانات اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے اور اپنی بزدلی کو چھپانے کے لیے یا پھر قوم کو خوش کرنے کے سواء اورکچھ نہیں اور نہ ہی ایسے بیانات کی کوئی وقعت وحقیقت ہے اور پھر پاکستان کوئی ایسا تر نوالہ نہیں جسے با آسانی حلق سے اتارلیا جائے۔
پاکستان اس وقت دنیا کی بہترین اور باصلاحیت فوج رکھتا ہے ۔پوری قوم کو اس بات پر فخر اور ناز ہے کہ پاک فوج کی قیادت ایک ایسے شیر دل کے ہاتھ میں جو اپنی سپہ سالاری کا لوہا منوا چکا ہے اور جو اپنی فوج کو لڑانا بھی جانتا ہے اور دشمن کو بھگانابھی۔پاک فوج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جس قدر قربانیاں دی ہیں پوری دنیا اس سے آگاہ ہے۔امریکا سمیت دنیا کا ہر ملک اور ہر فوج اس بات کو تسلیم کرچکی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف دنیا کی سب سے بڑی اور کامیاب جنگ لڑی ۔یہ پاک افواج ہی ہیں جس نے ٹرائیکا جیسی دشمن قوت کا نہایت احسن طریقے سے مقابلہ کیا اور اسے شکست فاش دی ۔
بھارتی حکومت اور فوج بھی اس بات سے پوری طرح آگاہ ہے کہ پاک فوج کے جذبوں کو شکست دینا اس کے بس کی بات نہیں اور بھارت کھلی جنگ میں کبھی اور کسی بھی صورت میں پاک افواج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یہی وجہ ہے کہ اس نے پاکستان کے اندر خفیہ جنگ یعنی دہشتگردی کا سہارا لیا اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر پاکستان پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی جس میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے ہے کہ جو فوج نہتے اور معصوم شہریوں پر شب خون مارنے کی عادی ہووہ کسی بھی فوج کے ساتھ لڑنے کے قابل نہیں رہتی ۔بھارتی فوج جو عام کشمیری مجاہدین کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رکھتی ہووہ پاکستان جیسی مضبوط وتجربہ کار فوج کا مقابلہ کیا کرے گی ۔جنگیں تعداد سے نہیں جذبوں سے لڑی جاتی ہیں۔
اگر تعداد جذبوں پر حاوی ہوتی تو قیصروکسریٰ جیسی سپر پاور ز نہایت قلیل تعداد کی فوجوں کا صرف صفایا کردیتیں بلکہ مسلمانوں کا نام ونشان تک مٹا کر رکھ دیتیں مگر وہ تمام قوتیں جذبوں کے سامنے خود نابود ہوکررہ گئیں لہذا انہی جذبوں کے تحت چودہ سوسالہ پرانی تاریخ 1980ء تا1988کے دوران ایک بار دہرائی گئی اور مرد مومن مرد حق جنرل ضیا الحق کی قیادت میں پاک فوج نے دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوت کو پاش پاش کرکے رکھ دیا۔
بھارت پاکستان میں را کے ذریعے جو گل کھلا رہا ہے ،وہ یہ سمجھ ربیٹھا ہے کہ پاکستان کواندرون خانہ الجھا کر اس سے کوئی فائدہ اٹھا لے گا تو یہ اس کی سب سے بڑی غلطی اور بھول ہوگی اس لیے کہ بھارت کے اندر چلنے والی بسیں سے زائد بڑی علیحدگی پسند تحریکیں جن میں سب سے بڑی تحریک آزادی کشمیر ،آزاد خالصتان تحریک نیشنل لبریشن فرنٹ آف ناگا لینڈ ،اروچل ڈریگن فورس ،یانائٹیڈ لبریشن فرنٹ آف آسام ،نیشنل موومنٹ آف گورکھا لینڈ ،مائو نواز نکسل موومنٹ ،نیشنل ڈیموکریٹک آف بودا لینڈ ،نیشنل لبریشن فرنٹ آف تریپور ،پروفیشنل لبریشن فرنٹ اور متحدہ اچھوٹ موومنٹ شامل ہیں جو بھارت کے ٹکڑے کردینے کے لیے کافی ہیں لہذا بھارت ہوش کے ناخن لے اور کوئی قدم اٹھانے سے پہلے روس کا انجام سامنے رکھے وگرنہ غرور وتکبر میں گھرا ہوا بھارت اپنے بکھرے ہوئے اعضاء کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہوا نظر آئے گا بالکل اسی طرح جس طرح روس آج اپنے وجود سے الگ ہوئے اعضا کو بکھرا ہوا دیکھ رہا ہے جو تا قیامت یکجا نہیں ہوسکتے لہذا اس سے قبل کہ پاکستان کے ہاتھوں بکھرنے والا بھارت دوسرا ملک کہلائے ،بھارت کو اپنی اوقات میں رہتے ہوئے پاکستان کے ساتھ الجھنے سے گریز کرنا چاہیے اور یہی بھارت کے مفاد میں بہتر ہے اور یقینابھارت کو پاکستان سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہوگا بقول شاعر
جو بھی لشکر ٹکرائے گا اس لشکر الٰہی سے وہ بچ نہ پائے گا خود اپنی تباہی سے۔۔۔۔