افغانستان میں قیام امن کے لئے ابو ظہبی کا اہم مذاکراتی دور مکمل ہو چکا ہے۔ امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ”افغانستان کے لیے میری سوچ یہ ہے کہ افغانستان وہ ملک ہوگا جہاں امن ہو، ایسا افغانستان جو کامیاب ہو، وہ افغانستان جو اپنے لیے خطرے کا باعث نہ بنے، یعنی افغانوں کے درمیان امن برقرار ہو، اور ایک ایسا افغانستان جو بین الاقوامی برادری کے لیے خطرے کا باعث نہ بنے، چونکہ میں افغانستان کی نمائندگی کرتا ہوں، اس لیے خاص طور پر یہ کہ وہ امریکہ کے خطرہ نہ بنے”۔ ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے زلمے خلیل زاد جب سے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی نامزد ہوئے ہیں۔ افغانستان میں قیام امن کے لئے متحرک نظر آتے ہیں۔
یہاں تک کہ افغان طالبان جو ہمیشہ امریکا پر عدم اعتماد کرتا ہے ، لیکن زلمے خلیل زاد کی نامزدگی پر کہا تھا کہ ”بلاشبہ اب وہ وقت ہے، جس طرح روس نے افغانستان میں شکست اور ناکامی کے بعد ایک ریٹائرڈ افسر’وارنسوف’کو بھیج کر یہ ٹاسک دیا کہ وہ افغانستان سے روسی افواج کے انخلا کے لیے محفوظ راستوں کا تعین کریں۔ یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ خلیل زاد کی ذمہ داری بھی ورانسوف کے جیسی ہے۔ ان کی آمد کا مقصد امریکا کی محفوظ واپسی ہے”۔زلمے خلیل زاد افغانستان کے شہر مزار شریف میں 22مارچ 1951کو پیدا ہوئے ۔ ایک تاجر، ماہر بین الاقوامی امور اور سفارتکار ہیں۔ جارج بُش کابینہ میں امریکا کے جانب سے سفیر برائے اقوام متحدہ مقرر رہے۔ اس کے علاوہ امریکی سفیر برائے افغانستان اور پھر امریکی سفیر برائے عراق بھی مقرر ہوئے۔ زلمے خلیل زاد امریکی وائٹ ہاؤس، سٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور پینٹاگون میں امریکی پالسی تشکیل دینے والے کمیٹیوں کے رکن بھی رہے ہیں۔تاہم زلمے خلیل زاد نے جب دوحہ قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر میں ملاقات کا دوسرا دور کیا تو افغان طالبان نے زلمے خلیل زاد کو سنجیدہ کوشش کرنے اور افغانستان کے زمینی حقائق کو سمجھنے والا قرار دیتے ہوئے ان پر اعتماد کا اظہار کیا ۔پاکستان بھی زلمے خلیل زاد کے کردار سے مطمئن اورقیام امن کے لئے مثبت سوچ رکھنے والی شخصیت سمجھتے ہیں۔
ماسکو کانفرنس کے انعقاد پر بھی افغان طالبان نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”امارت اسلامیہ افغانستان اس طرح کانفرنسوں کے انعقاد کو تنازعہ کے حل کی جانب مثبت قدم سمجھتی ہے اور امید کرتی ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔ کیونکہ جنگ کا مسئلہ ہمیشہ افہام وتفہیم اور سیاسی تعامل کے ذریعے حل ہوتی ہے۔ یہ کہ امریکی حکومت نے بھی اس کانفرنس کو اپنا نمائندہ بھیجا تھا، تو یہ بہترین اقدام ہے۔ امید ہے کہ مخالف پہلو مستقبل میں اس سے اعلی سطح اور مؤثرناک طور پر اس افہام وتفہیم کے منصوبے میں شرکت کریں اور آخر میں اس نتیجے پر پہنچ جائینگے،تاکہ اپنی قابض افواج کی خروج سے اس جنگ کو ختم کردے ۔”صدر ٹرمپ نے جب پاکستانی وزیر اعظم کو خط میں افغان طالبان سے مذاکرات کرانے کے لئے تعاون کی درخواست کی تو مراسلے میں زلمے خلیل زاد سے تعاون کا بھی ذکر کیا گیا۔
مراسلہ موصول ہونے کے بعد امریکی خصوصی ایلچی پاکستان آئے اور پاکستان نے خصوصی طور پر ان سے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے تصدیق کی تھی کہ” امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا حالیہ دورہ پاکستان افغان امن کے حوالے سے مدد مانگنے کیلئے ہی تھا”۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بیان جاری کیا گیا تھا کہ ” امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان اور پاکستان زلمے خلیل زاد خطے کے دورے کے دوران پاکستان، افغانستان، روس، ازبکستان، ترکمانستان، بیلجیم، متحدہ عرب امارات اور قطر جائیں گے، جہاں وہ مختلف سفارتی وفود اور حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں کریں گے۔ زلمے خلیل اس بات کی بھی کوشش کریں گے کہ مذاکرات کے ذریعے تنازع کا تصفیہ تلاش کیا جائے”۔جبکہ زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ” وہ امریکی حکومت کی جامع ٹیم کی سربراہی کر رہے ہیں، ان کی ٹیم میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، پینٹاگون، وائٹ ہائوس اور دیگر سیکیورٹی ایجنسیوں کے ارکان بھی شامل ہیں”۔
زلمے خلیل زاد کا زیادہ انحصار پاکستان پر ہے اس لئے تسلسل کے ساتھ حکومت سے بھی رابطے میں ہیں۔ ابو ظہبی کانفرنس کے بعد دوبارہ امریکی خصوصی ایلچی کا دورہ پاکستان اس بات کا اظہار تھا کہ زلمے خلیل زاد سنجیدگی کے ساتھ قیام امن کے لئے کام کررہے ہیں۔ کابل انتظامیہ بار بار اس نکتے کو اٹھاتی ہے کہ جو بھی مذاکرات ہوں اُن کی سربراہی میں کئے جائیں ، لیکن افغان طالبان اس پر متعدد بار واضح موقف دے چکے ہیں کہ کابل انتظامیہ کے پاس اختیارات نہیں، اس لئے امریکا سے ہی براہ راست مذاکرات کئے جائیں گے۔اقوام متحدہ کے لیے سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کا ماننا رہا ہے ” کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی کمی ہے۔ زلمے خلیل زاد نے دونوں جانب سے حالیہ گرمجوشی کے بارے میں کہا کہ ”میرا نہیں خیال کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں، حالیہ گرمجوشی یہ دیکھنے کے لیے ہے کیا وہ ایک دوسرے پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟” ان کا کہنا تھا کہ ملاقاتیں اور دورے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ ضرورت عملی اقدامات کی ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں ایک سلوگن دیکھا جا رہا ہے کہ لٹس کلین اپ (Let’s Clean Up)”میرے خیال سے یہ ایک اچھا سلوگن ہے۔” دنیا کی نظری ابوظہبی میں ہونے اہم ترین مذاکراتی دور پر ٹکی ہوئی تھی کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ زلمے خلیل زاد نے افغان طالبان سے جب سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا ہے ، مذاکرات میں مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے ۔ دوحہ قطر میں طویل مذاکرات اور امریکی اعلیٰ عہدے داروں کی دوحہ قطر سیاسی دفتر میں آمد کے بعد توقعات یہی ظاہر کی جا رہی ہیں کہ 2019کا سال افغانستان کے لئے اچھی خبر لا سکتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے امریکا کا کردار اہم ہے کیونکہ ماضی میں جب بھی مذاکرات کا عمل کسی متفقہ ایجنڈے کی جانب گامزن ہوتا تو ایسے واقعات رونما کردیئے جاتے جس سے تمام کوششیں رائیگاں چلی جاتی ۔ اس وقت امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا اہم ترین دور چل رہا ہے۔
زلمے خلیل زاد مسلسل پاکستان اور کابل انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ نے اپنے ایک انٹرویو میں بے یقینی کا اظہار کیا ہے کہ ” مذاکرات شاید کامیاب ہوں یا ناں ہو ں ”۔ کابل انتظامیہ کا کردار ابھی واضح نہیں ہے ۔ کابل سہملکی کانفرنس میں جب پاکستان کے وزیر خارجہ نے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا تو ایک مرتبہ پھر کابل انتظامیہ نے پاکستان پر الزامات عاید کرنا شروع کردیئے ۔ جس سے مثبت فضا متاثر ہوئی ۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سہ ملکی مذاکرات میں شرکت کے لیے ہفتے کو ایک روزہ دورے پر افغانستان پہنچے تھے۔ چینی وزیر خارجہ کے ہمراہ علاقائی سطح پر قیام امن کی خاطر اپنی نوعیت کی یہ دوسری کانفرنس تھی۔افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کا اپنے پاکستانی ہم منصب سے مطالبہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ امن کے حصول کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم امن کے لیے پاکستان سے نتیجے پر مبنی اقدامات اور مصالحتی عمل کے لیے اس کی مخلص حمایت چاہتے ہیں۔”اس کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ نے علاقائی کشیدگی کا ذمے دار کابل حکومت کو ٹھہرایا۔ ان کا کہنا تھا، ”اگر افغانستان امن چاہتا ہے تو اسے پاکستان پر انگلیاں اٹھانا بند کرنا ہو گا۔”
ابوظہبی میں ہونے والے مذاکرات میں کابل انتظامیہ کا کسی فرد کو شامل نہیں کیا گیا ۔ اس کا واضح مقصد افغان طالبان کے اس مطالبے کو ماننا تھا کہ کٹھ پتلی حکومت سے مذاکرات نہیں کئے جائیں گے ۔ کابل انتظامیہ اور ان کی سرپرستی میں مسلح جنگجوئوں کی وجہ سے افغانستان میں بھارت شر انگیز انگیز کاروائیاں کررہا ہے۔ متعدد ایسے واقعات کابل میں رونما ہوئے جس کی ذمے داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی ۔ حالاںکہ داعش خراساں شاخ ہو یا امارات اسلامیہ کی جانب سے کئے جانے والے چھوٹے سے لیکر بڑے حملے تک ، کاروائی کی ذمے داری قبول کی جاتی ہے۔ بھارت اور کابل انتظامیہ میں شامل جنگجو ملیشیاء اور امن دشمن عناصر کی روز اول سے کوشش ہے کہ پاکستان کے کردار کو محدود و تنہا کرتے ہوئے تمام ناکامی کا ملبہ ریاستی اداروں پر ڈالا جائے ۔ تاہم پاکستان نے سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی میں افغان سرزمین کے استعمال ہونے پر عالمی برداری کو کئی مواقع پر آگاہ کیا۔
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعا ت میں افغان سرزمین میں موجود دہشت گردوں کی نشان دہی کی اور شواہد فراہم کئے۔ جب کہ کابل انتظامیہ محض بے بنیاد الزامات ہی عاید کرتی رہی ہے۔ بھارت کی ایما پر کابل انتظامیہ کے کردار سے پاکستان کو جتنے تحفظات ہیں اس سے زیادہ افغان طالبا ن کو ہیں ۔ افغان طالبان بھارت کو متنبہ کرچکے ہیںکہ وہ کابل انتظامیہ کے ساتھ مل کر عام شہریوں پر بمباریاں بند کرے اور افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔کابل انتظامیہ کے رویئے سے امریکا مطمئن نہیں ہے اور کئی مواقع پر کابل انتظامیہ کی تضحیک وسرزنش کرچکا ہے ۔ جس پرکابل پارلیمنٹ کے کئی اراکین نے سخت احتجاج بھی کیا کہ” امریکا کیا ہمیں غلام سمجھتا ہے کہ اس کا ہر فیصلہ ہم پر تھوپ دیا جائے گا اور ہم تسلیم کریں گے”۔ کابل انتظامیہ میں امریکی مداخلت سے خود کابل حکومت کی انتظامیہ بھی نالاں نظر آتے ہیں۔
افغان طالبان نے ابوظہبی مذاکرات کے بعد اپنے ایک اعلامیہ میں امارات اسلامیہ کا ساتھ دینے کے لئے انتظامیہ اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر ملکی افواج کو افغانستان سے باہر نکالنے کے لئے ان کا ساتھ دیں ۔ افغانستان کی سرز مین پر بیرونی جارحیت کو 17 برس نہیں بلکہ 27دسمبر1978 سے غیور قوم پر جنگ مسلط کی گئی ہے۔ 39برس کی ایک ایسی طویل جنگ جو عالمی قوتوں کے مفادات کے خاطر افغان عوام پر مسلط کی گئی ۔ سوویت یونین سے امریکا تک صرف اپنے مخصوص مفادات کے لئے خطے کے اہم ترین ملک میں لاکھوں انسانوں کو ہلاک اور پورے مملکت کا انفرااسٹرکچر تباہ کرچکے ہیں۔ محبت، وفا اور بہادر عوام کی سرزمین پر اتنا بارود گرایا گیا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ آج امن کے نام پر جنگ مسلط کرنے والا امریکا اپنی مملکت کی طویل ترین جنگ سے باہر نکلنے کے لئے ایک ایسے معاہدے کے خواہاں ہے جس میں اپنے ناکامی کو کامیابی ثابت کرسکے ۔ امریکا نے اپنی فروعی مقاصد کے لئے جہاں افغانستان کو برباد کیا تو دوسری جانب اس کے شر سے پڑوسی ممالک بھی محفوظ نہیں رہ سکے۔خاص طور پر پاکستان نے سوویت یونین کی جنگ میں امریکا کا ساتھ دے کر پرائی جنگ کے شعلوں سے اپنے گھر میں آگ لگائی ۔ آج پاکستان اُس آگ کو بجھانے میں مصروف ہے جس کی آبیاری ماضی میں غلط پالیسیوں کے تحت کی گئی تھی۔
پاکستان اس بات کا اظہار کرچکا ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دوہرائے گا ۔ اس عزم پر جہاں موجودہ حکومت قائم ہے تو اصل روح رواں عسکری قیادت نے پرائی جنگ کا ایندھن بننے سے انکار کرکے امریکا کی کئی خواہشات پر پانی پھیر دیا ہے۔ آج اس جنگ کے نتیجے میںقبائلی علاقوں کے دس لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہوچکے ہیں ۔ 80ہزار کے قریب قیمتی جانوں کا نقصان ہوا تو 120ارب ڈالر کے مالی نقصان بھی پاکستان کے ناتواں کندھے پر آیا ۔ پاکستان کے پالیسی ساز وں کا بنیادی مقصد یہی رہا ہے کہ عالمی قوتوں کو اپنی ملکی سرحد سے دور رکھا جائے تاکہ کسی ممکنہ عالمی جنگ سے پاکستان متاثر نہ ہو ، لیکن سویت یونین جیسی عالمی طاقت کو روکنے کے لئے امریکا نے فائدہ اٹھایا اور پاکستان کی یہ پالیسی کامیاب نہ ہوسکی کہ عالمی قوتوں کو پاکستان کے پڑوسی ملک میں داخلے سے روکا جا سکے ۔ سوویت یونین کے بعد امریکا مسلط ہوگیا اور اب امریکا کو افغانستا ن میں جہنم کا سامنا ہے ۔ نئی معاشی طاقت بننے والی مملکت اب چین متحرک کردار ادا کررہا ہے تو دوسری جانب ماضی میں افغان طالبان کے ساتھ دینے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ، امریکی ایما پر افغان طالبان پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ امریکا کے جنگ بندی و عبوری حکومت کے فارمولے کو تسلیم کرلے۔لیکن افغان طالبان کا جو موقف 1978میں سوویت یونین کے خلاف تھا وہی موقف2018میں امریکا کے لئے بھی ہے کہ افغانستان سے نکل جائیں ۔
پاکستان مزید کسی عالمی پراکسی وار کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے اپنے جتنا اثر رسوخ استعمال کرسکتا ہے اپنے رسوخ کے مطابق کررہا ہے اور افغانستان میں قیام امن کے لئے کوشاں ہے ۔ گو کہبھارت نے افغانستان میں اپنے پنجے گاڑ دیئے ہیں ۔ پاکستان کو داخلی و شدت پسندی اور سیاسی مسائل میں الجھا کر بھارت نے افغانستان میں اپنے رسوخ کو بڑھایا ۔ امریکا کی ایما پر سرمایہ کاری کی اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے سے افغان عوام کے دلوں میں پاکستان کے خلاف تعصب پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ پاکستان چار دہائیوں سے افغان عوام کی میزبانی کرنے والا دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جس نے افغان شہریوں کو پاکستانی شہریوں کی طرح پوری مملکت میں آزادی سے نقل و حرکت کرنے کی آزادی دی ، تجارت کے لئے بھرپور مواقع دیئے ۔ لاکھوں آبادی کا بوجھ برداشت کیا ۔ امن او امان کی بحالی کے لئے سختیاں جھیلیں ۔ لیکن پاکستان کی سیاسی صورتحال اور بے امنی نے خارجہ محاذ پر توجہ ہونے کے سبب بھارت کو موقع ملا اور ہند و انتہا پسند بھارتی حکومت نے پاکستان کے خلاف اپنے مذموم سازشوں کے ذریعے جال بُنا۔پاکستان اب اس جال کو توڑنے کی کوشش کررہا ہے ۔ اگر اس بار قیام امن کی راہ میں پاکستان اور افغانستان میں شر پسند رکائوٹ بنے تو افغانستان ایک بار پھر امن کے راستے سے کافی دور چلا جائے گا۔
افغان طالبان نے سنجیدگی کے ساتھ قیام امن کے قابل قبول معاہدے کے لئے اصولی موقف اپنایا ہے۔ امریکا کا افغانستان میں جارحیت کا مقصد اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پورا ہوچکا تھا ، اصولی طور پر امریکا کو کوئی حق حاصل نہیں تھا کہ وہ افغانستان کی اُس عوام پر حملہ آور ہوتا جو سوویت یونین کی جارحیت کے بعد سنبھلنے کی کوشش کررہی تھی لاقانونیت اورافغانستان میں عبوری حکومت کی ناکامی کے بعد خانہ جنگیوں کو ختم کرنے کے لئے افغان طالبان نے مملکت کو مزید تباہی سے بچانے کے لئے اپنی روایات کے مطابق حکمت عملی اختیار کی ۔ کسی بھی ملک کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ کسی دوسرے ملک کو اپنے داخلی معاملات میں اثر انداز ہونے کی اجازت دے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جن جن حکومتوں نے عالمی طاقتوں پر انحصار کیا تو اس کا حشر تباہی کے علاوہ کچھ اور نہیں نکلا ۔ امریکا شام سے مکمل انخلا کررہا ہے ، افغانستان سے بھی مکمل انخلا خطے کے مفاد میں ہے۔تاہم امریکا اور افغان طالبان کے درمیان کسی مفاہمتی فارمولے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں ابھی بھی کئی صبر طلب مراحل باقی ہیں۔
ابو ظہبی کانفرنس کو لیکر مغربی میڈیانے خود ساختہ ایسی خبریں بھی جاری کیں کہ جیسے افغان طالبان عبوری حکومت کی تشکیل ، جنگ بندی پر رضا مند ہوچکا ہے اورامریکا کا افغانستان سے انخلا ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق ہوگا ۔ لیکن افغان طالبان نے مغربی میڈیا اور کابل انتظامیہ کے زیر اثر ذرائع ابلاغ میں جاری ان خبروں کو خود ساختہ اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے سختی سے تردید اور مذمت کی ہے۔ افغان طالبان نے واضح طور پر کہا ہے کہ ابو ظہبی مذاکرات کے بعد نتائج کا حتمی وقت کئی ہفتوں اور کئی مہینوں پر محیط ہوسکتا ہے ۔ قبل ازوقت بے بنیاد خبرو ں سے بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوتی ہے ۔ عالمی ذرائع ابلاغ کو ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ابو ظہبی مذاکرات اختتام پذیر ہوچکے ہیں ۔ دونوں فریقین زیر بحث ایجنڈے پر دوبارہ مذاکرات کا اعلان افغان صدراتی انتخابات سے قبل کرنے کی امید ہے ۔امریکا 2019 میں صدارتی انتخابات میں اپنے من پسند امیدوار کی حمایت، جنگ بندی کے لئے ابتدائی معاہدہ کرنا چاہتا ہے کہ وہ چاہیں تو اپنا امیدوار نامزد کردیں۔ لیکن افغان طالبان انتخابی عمل کو مسترد کرتی ہے اور جنگ بندی کا معاہدہ اس وقت تک کرنے کو تیار نہیں ہے جب تک غیر ملکی افواج افغانستان چھوڑ نہیں دیتی۔تاہم امریکی صدر کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد 2019 میں افغانستان مسئلے کے حل کے لئے کافی پر امید ہیں۔ 20 دسمبر تک انہوں نے اہم ممالک کے دورے بھی کئے اور دوبئی میں گزشتہ دنوں اہم کانفرنس بھی ہو چکی ہے۔ اس وقت روس، ترکی، جرمنی، چین اور وسط ایشائی ممالک افغانستان میں قیام امن کے لئے سرگرم ہیں۔
پاکستان، افغان طالبان کے ساتھ امریکا کی براہ راست مذاکرات کے لئے سہولت کاری میں تعاون کی درخواست پر اہم کردار ادا کررہا ہے۔ لیکن امریکا کا غیر لچک دار رویہ تمام عمل کو ناکام بنا سکتا ہے۔ افغان طالبان کی عسکری قوت و طاقت مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے۔ داعش کی وجہ سے ایران اور روس سمیت کئی اہم ممالک کا افغان طالبان کے ساتھ مکمل تعاون حاصل ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے تحفظ کی یقین دہانی کرائی جاچکی ہے کہ مفاد عامہ کے کسی منصوبے کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ افغان طالبان، افغانستان کی تقسیم کا فارمولا بھی رد کرچکے ہیں۔27 دسمبر 1979 کو سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ 9 سال 51 دن تک سوویت یونین کو ایسے مزاحمت کاروں کا سامنا ہوا، جنہوں نے 15 فروری 1989 کو سپر طاقت سمجھنے والی قوت کو شکست و ریخت سے دوچار کیا۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے سوویت اتحاد کی افغانستان پر دھاوا بولنے کی مخالفت کی۔ خاص کر تمام اسلامی ممالک نے اس کی سخت مخالفت کی اور 34 اسلامی ممالک نے باقاعدہ قرارداد میں مطالبہ بھی کیا تھا کہ سوویت اتحاد جلد از جلد افغانستان سے افواج واپس نکالے۔بیشتر اسلامی ممالک نے افغان مجاہدین کی امداد کی۔لیکن اب اسلامی ممالک امریکا کو انخلا کے لئے دبائو دالنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ تمام اسلامی ممالک کو ایک بار پھر افغانستان میں امریکا فوجیوں کی واپسی کے لئے اہم کردار ادا کرنا ہوگا ْ۔بالخصوص افغان عام شہریوں پر امریکی بمباریوں سے ان گنت ہلاکتوں کو روکنا انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی اہم فرائض میں شامل ہے۔