دستور ہند اور سیکولرازم کا تحفظ کانفرنس کے حوالے سے چند باتیں

Kolkata Conference

Kolkata Conference


تحریر : ڈاکٹر سید احمد قادری

ملک کے اندر اس وقت جس طرح مذہب کے نام پر لوگوں کو بانٹنے ، آپسی محبت ، رواداری کو ختم کرنے اورخوف و دہشت کا ماحول بنایا جا رہا ہے اور بر سر اقتدار رہنے کے لئے آئے دن ملک کے دستور اور سیکولرازم کی پامالی ہو رہی ہے ، ان حالات میں امن پسند شہریوں اور دانشوروںکی نیندیں حرام ہیں کہ اگر یہی حالات رہے تو ملک کی سا لمیت و استحکام کا کیا ہو گا؟

ایسے ناگفتہ بہ حالات میںآل انڈیا انجمن اتحاد ملّت ، کلکتہ کی جانب سے ”دستور ہند اور سیکولرازم کا تحفظ” جیسے اہم موضوع پر آل انڈیا مسلم کانفرنس کا انعقاد وقت کے تقاضے کو سمجھتے ہوئے کیا گیا ۔ جس میں عزیز برنی، مولانا سید عامر رشادی مدنی، سید احمد قادری، مولانا سید علی حسین قمّی، شکیل صمدانی، اے۔ آر۔ انصاری، جاوید اقبال، حافظ ہاشم قادری مصباہی، مولانا محمد شفیق قاسمی جیسی مختلف مکتبۂ فکر کی اہم شخصیات کو اس کانفرنس کے حوالے سے ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرپورے ملک میں ایک مثبت پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات واضح کر دوں کہ آر ایس ایس ان دنوں مغربی بنگال کی پر امن فضا کو فرقہ واریت کا رنگ دے کر مسموم کرنے کے درپئے ہے ۔

رتھ یاترا نکالنے کے لئے جس طرح وہ بضددِکھ رہی ہے اوریہاں کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اس کے خلاف مورچہ لئے ہوئی ہیں ، وہ یقینا قابل تعریف ہے ۔ اس رتھ یاترا کے پیچھے اس پارٹی کے مقاصد کیا ہیں ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔ یہ بھی اتفاق ہی تھا کہ گزشتہ 13دسمبر 18 ء کو آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت ، کلکتہ شہر کے مختلف بند کمروں میں دستور ہند اور سیکولرازم کی پامالی کے منصوبے بنانے میں مصروف تھے اور ادھر کلکتہ شہر کے قلب میں واقع مسلم انسٹی ٹیوٹ ہال سے ترنمول کانگریس کے ممبر اسمبلی اور انجمن کے صدر معین الدین شمس مائک پر ببانگ دہل چیلنج کر رہے تھے کہ ہم کسی بھی قیمت پر ملک کے دستور اور سیکولرازم کی پامالی برداشت نہیں کرینگے ۔ اس کے لئے ہمیں جو کچھ بھی قربانی دینا پڑے گی ، اس کے لئے ہم تیار ہیں ۔ موہن بھگوت اور ان کی حکومت کے ہندوتوا کے خواب کو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دینگے۔ معین الدین شمس نے اپنی تقریر میں اس بات کو بھی واضح کر دیا کہ کلکتہ سے جو تحریک شروع ہوتی ہے ، وہ پورے ملک کی فضا میں چھا جانے کی قوت رکھتی ہے اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ دستور ہند اور سیکولرازم کے تحفظ کے لئے ملکی پیمانے پر مہم چلائنگے اور اس کے لئے ہماری انجمن ملک کے سیکولر لوگوںکے ساتھ مل کر 26 دسمبر سے 26 جنوری تک دستخطی مہم چلائنگے اور 27 جنوری 19 20ء کو دہلی میں صدر جمہوریہ ہند کو دستخط شدہ میمورنڈم پیش کرینگے۔ معین الدین شمس کے بعد انجمن کے نائب صدر ڈاکٹر جمال الدین شمس نے بھی اپنی پر مغز اور پر جوش تقریر میں صاف طور پر کہا کہ دستور ہند میں کسی طرح کی تبدیلی ہوتی ہے تو اس سے ملک کو بھاری نقصان ہوگا ۔ ہم اگر اپنے دستور اور سیکولرازم کو نہیں بچا پاتے ہیں تو یہ ملک نہیں بچے گا ۔

اس لئے کہ ہمارا دستور ہی ملک کو یکجہتی ، رواداری، محبت کی تلقین کرتا ہے ہم حکومت کا ایسا کوئی بھی فرمان ماننے کو تیار نہیں ہیں ، جو ملک کی شاندار روایات واقدار کو ختم کر دے۔ ڈاکٹر جمال الدین شمس نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ دستور ہند اور سیکولرازم کے تحفظ کی لڑائی آج ملک کے نوے فی صد لوگ لڑ رہے ہیں ۔ ممبر مسلم پرسنل لا بورڈ پروفیسر شکیل صمدانی (علی گڑھ) نے اپنی تقریر میںبتایا کہ آئے دن دستور کی پامالی اور آئین کی تبدیلی کا خوف اس وقت ملک کے نوے فی صد لوگوں کا مسئلہ بن گیا ہے اور اس مسئلہ کو اتحاد و اتفاق کے ذریعہ ہی حل کیا جا سکتا ہے ۔ مضبوط اتحاد کی اس وقت سخت ضرورت ہے اور یہی مضبوط اتحاد ہی ملک دشمن عناصر کو شکست دے سکتی ہے ۔

اپنی افتتاحی تقریر میں مغربی بنگال کے وزیر اور کلکتہ کے پہلے مسلم میئر فِرہاد حکیم نے آر ایس ایس کے چہرے سے نقاب اتارتے ہوئے یہ بتایا کہ یہ ہمیشہ سے برٹش حکومت کا دلال رہا ہے ، اور اس کی ہمیشہ یہی پالیسی رہی ہے کہ لوگوں میں نفاق ڈالو اور حکومت کرو۔ لیکن اب اس کی یہ پالیسی اس ملک میں کامیاب نہیں ہونے والی ہے ۔ ہم کیا کھائینگے ، کیسے رہینگے ، یہ سب ہمارا نجی معاملہ ہے ، ان حقوق کو کوئی ہم سے نہیں چھین سکتا ہے ۔ ہم کسی بھی قیمت پر فرقہ پرستی کے آگے نہیں جھکینگے اور نہ ہی اس سرزمین پر فرقہ پرستی کو بڑھنے دینگے ۔اس سرزمین کو قاضی نزر السلام ، سوامی ویویکانند اور رابندر ناتھ ٹیگور وغیرہ جیسی تاریخ ساز شخصیتوں نے سینچا ہے ۔ مشہور اردو صحافی عزیز برنی نے بھی گزشتہ چند برسوں میں ملک کے اندر فرقہ واریت کے بڑھتے حالات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ فرقہ پرست طاقتوں نے ملک کو اس درجہ اپنے شکنجے میں لے لیا ہے کہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب پارہ پارہ ہو گئی اور پھر وہی تقسیم وطن جیسا ماحول نظر آنے لگا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے عوام خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان ، وہ ملک میں امن چاہتے ہیں ۔کلکتہ کے اس تاریخی اجلاس میں مولانا سید عامر رشادی مدنی ، قومی صدر راشٹریہ علمأ کونسل ، اعظم گڑھ نے بھی موجودہ حالات میں دستور ہند اور سیکولرازم کی حفاظت اسی وقت ممکن ہے جب شیعہ، سنّی ، دیو بندی، بریلوی جیسے مسلکی جھگڑوں کو چھوڑ کر ایک اللہ ایک رسول کے نام پر متحد ہو جائیں ، تبھی فرقہ پرستوں کے بڑھتے حوصلوں کو پست کیا جا سکتا ہے ۔ آل انڈیا مسلم کانفرنس میں، میں بھی مدعو تھا ۔ اس موقع پر میں نے تاریخ کے حوالے سے یہ بات بتائی کہ جین مذہب کے پیروکار چندر گپت موریہ اور راجہ اشوک نے اپنے بودھ مذہب کو ضرور اپنی حکومت کی بنیاد بنایا تھا۔لیکن اس کے بعد محمد بن قاسم سے لے کر مغلوں کی آٹھ سؤ سال کی حکومت اور پھر انگریز بہادر و برٹشوں کی دو سؤ برسوں تک کی حکومت میں کسی بھی حکمراں نے اپنے مذہب کو حکومت کی بنیاد نہیں بنایا بلکہ آزادیٔ مذہب کو اصول بنایا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہزار سال گزر جانے کے باوجود ہمارے ملک کا سیکولر مزاج رہا ہے ۔ جسے مٹھی بھر فرقہ پرست طاقت ختم کرنے کے درپئے ہے ۔

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آزادی ملنے کے بعد بھی ہمارے دستور سازوں نے دستور میں لفظ سیکولر کی شمولیت کو ضروری نہیں سمجھا تھا ۔ لیکن مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد فرقہ پرست تنظیموں کے ذریعہ مسلسل ملک کے اندر سیکولرازم کی پامالی بڑھنے لگی اور ہزاروں برس کی گنگا جمنا تہذیب واقدار پر خطرہ منڈرانے لگا تب اندرا گاندھی کی حکومت نے 1976 ء میں دستور ہند کے تمہید میں 42ویں ترمیم کے ذریعہ لفظ سیکولر کو شامل کیا تھا ۔ افسوس کہ آج مٹھی بھر فرقہ پرستوں کو ملک کا آئین اور لفظ سیکولرازم بوجھ لگنے لگا ہے ۔ ہم اس امر انکار نہیں کر سکتے کہ ہمارا ملک گنگا جمنی تہذیب ،مساوات ،یکجہتی، اوررواداری کے لئے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔وہ اس وقت بہت ہی خطرناک دور سے گزر رہا ہے اور اپنے شاندار ماضی پر آنسو بہا رہا ہے۔ ایسے بد سے بدتر حالات کے مد نظر سنجیدہ اور سیکولر طبقہ کی فکر مندی اور تشویش فطری ہے ۔

سیکولرازم اور دستور ہند کی ہمنوائی کی سزا کلبرگی، پانسرے،دابھولکر اور گوری لنکیش وغیرہ کو دی گئی اور جس بے رحمی سے انھیں قتل کیا گیا ،ان کا یہ حشر دیکھ کر آئین اور سیکولرازم کے علمبرداروں کا خوف زدہ ہونا بھی فطری ہے۔ ملک کے ادیبوں ، شاعروں نے عدم رواداری ، فرقہ واریت اور بڑھتے تشدد کے ماحول پر احتجاج میں سرکاری ایوارڈ واپس کرنے کی ہمّت دکھائی ، تو انھیں بھی ذلیل و خوار کیا گیا ۔فلم انڈسٹری کے باضمیر فلم سازوں اور فنکاروں نے دستور ہند کی دوہائی دیتے ہوئے بڑھتے ظلم و نا انصافی کے خلاف اٹھائی تو ان کے احساس و جذبات کو بھی خوف اور عدم تحفظ کا احساس کرا کر کچل دیا گیا۔

ایسے سنگین اور خوف و دہشت بھرے حالات میں ملک کے اسّی فی صد سے زائد ملک کے عوام کا تشویش میں مبتلاہیں ۔ ایسے لوگ دبی دبی زبان سے اپنی ناراضگی اور خدشات کا اظہار کررہے ہیں ، چند اخبارات اور چینل بھی ہمت و جرأت کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔لیکن جب ہمارے سابق صدر جمہوریہ ہند عالی جناب پرنب مکھرجی ، جو حال ہی میں ناگپور میں آر ایس ایس کے مرکز کا دورہ بھی کر چکے ہیں ، وہ جب یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ” ملک اس وقت برے اور خراب دور سے گزر رہا ہے ،جہاں تعصب اور تنگ نظری میں بہت اضافہ ہو گیا ہے”تب حالات کی سنگینی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔پرنب دا نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ” جس سر زمین نے دنیا کو خاندان کے اقدار اور رواداری ،تہذیب و ثقافت کے تصّور کو فروغ دیا،وہ اب تعصب ، غصّے کا اظہار اور حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے لئے خبروں میں ہے ۔”

محترم پرنب مکھرجی اور دیگر کئی دانشوروں کی ایسی حقیت بیانی کے بعد ملک کی بہت بڑی آبادی کو یہ سوچنے کے لئے مجبور کر دیا ہے کہ یہی حالات رہے تو ہمارے ملک کے دستور اور اس دستور میں شامل کئے گئے سیکولرازم کا تحفظ کیسے قائم رہ سکتا ہے ۔ فسطائی قوتوں نے منافرت، فرقہ واریت ،بد امنی،انتشار، افراتفری اور انارکا زہر گھول کر اور ملک کے دستور کو بدل کر ملک کی نہ صرف صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کو ختم کرنے کے در پئے ہے اس سے ملک کی سا لمیت پر بھی خطرے منڈرا رہے ہیں ۔

ان تمام حالات اور خدشات کے مداوا کے لئے یوں تو اس وقت ملک کے کونے کونے میں احتجاج ومظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ، لیکن دستور ہنداور سیکولرازم کے تحفظ کے موضوع پر پورے ملک میں پہلی بارآل انڈیا انجمن اتحاد ملت نے باضابطہ طور اس سر زمین سے جو غیر آئینی اور غیر انسانی کوشش کرنے والوں کو اپنی ٹھوکروں پر رکھتی ہے اور یہ کہنے کی جرأت رکھتی ہے کہ ہم فرقہ پرستی کو یہاں پنپنے نہیں دینگے ، وہاں سے ،ملک میں بڑھتے انتشار، لا قانونیت، بد امنی ،افراتفری، انارکی،فرقہ واریت، عدم رواداری اور غیر انسانی و غیر آئینی رجحان کے بڑھتے اندھیرے کو دور کرنے کی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔

اب جیسے جیسے پارلیامنٹ کا انتخاب قریب آ رہا ہے ، ویسے ویسے شکست کے خوف سے آر ایس ایس اور اس کی سیاسی جماعت وحکومت کی چھٹپٹاہٹ بڑھتی جا رہی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد حکومت نے کوئی بھی ایسا کام نہیں کیا جو ملک کے عوام کے فلاح و بہبود اورمفادات میں ہو ۔بلکہ پورے ملک میں فرقہ واریت کا زہر گھول کر ہندوتوا کے ایجنڈے پر کام کرتی رہی اور ببانگ دہل یہ بات کہی گئی کہ ہم تو ملک کا آئین بدلنے کے لئے ہی حکومت میں آئے ہیں ۔انتہا تو یہ ہے کہ سیکولرازم کی بات کرنے والوں کی ولدیت کو بھی مشکوک قرار دیا گیا ۔

یہ تو دستور ہند اور سیکولرازم کی پامالی کا منظر نامہ ہو ا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے اور جیسا کہ اس کانفرنس کا موضوع ہے کہ ان کا تحفظ کیسے ہو ؟ یہ سوال بہت ہی اہم ہے کہ ان کے تحفظ پر ہی نہ صرف ہمارے ملک کی جمہوریت بلکہ اس کی سا لمیت کا انحصار ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم آپسی رنجشوں ، نااتفاقی اور اختلافات کو اتحاد و اتفاق میں ہر ممکن طور بدلنے کی کوشش کریں ۔ اپنے تمام مسلکی جھگڑوں کو بھی فی ا لحال سرد خانے میں ڈال دیں اور ملک کے سیکولر طاقتوں کے ساتھ مل کر ان قوتوں کا سامنا کرنے کی تیاری کریں ، جو بہت ہی منظم اور منصوبہ بندطریقے سے اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں ۔ ہمیں ان عناصر سے بھی ہوشیار رہنا ضروری ہے جو ہماری صفوں میں داخل ہو کر اور بظاہر ہمارے ہمدرد بن کر ہمیں کمزور اور بے وقعت کرنے اور ہمارے وجود اور تشخص کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے در پئے ہیں ۔

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے درمیان ایسے افراد بھی ہیں جو دانستہ اور نادانستہ طور پر دستور ہند اور سیکولرازم کو ختم کرنے والوں کے عزائم سے چشم پوشی کرتے ہوئے عہدہ اور مال و دولت کے لئے استعمال ہونے کے لئے ہمہ وقت تیار بیٹھے ہیں ۔ہمیں ایسے آستین کے سانپ سے بھی بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ یقین جانئے کہ اس وقت ملک کے اسّی فی صد سے زائد ایسے لوگ ہیں ، جو ملک کے اندر رواداری، یکجہتی ، انصاف، بھائی چارگی کا ماحول قائم رکھنے کے لئے بے چین ہیں ۔ ایسی سیکولر طاقت کے ساتھ ہی اپنے تمام تر اختلافات اور ترجیحات کو فراموش کر ساتھ چلنا ہوگا ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو ہمارا ساتھ دینے والے، سیکولر ازم پر یقین رکھنے والے اور آئین کے تقدس کی پامالی پر مخالفت کرنے والے بھی کمزور پڑ جائینگے ۔ اگر ہم نوشتۂ دیوار کو پڑھنے سے گریز کر رہے ہیں اور ملک میں بڑھتی خانہ جنگی اور قتل وغارت گری کے بہت قریب ہوتی دھمک کو نہیں سن پا رہے ہیں ، تویہ ہماری بے حسی ہے اور ایسے ہی حالات رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں ۔ اب دیکھنا ہے کہ کلکتہ سے معین الدین شمس نے بڑھتے اندھیرے کو دور کرنے کے لئے بڑی محنت سے اس کانفرنس کا انعقاد کر روشنی کی کرن دکھائی ہے۔ اس پر ہم کس قدر سنجیدہ ہوتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو کیسا پیغام دیتے ہیں۔

Dr syed Ahmad Quadri

Dr syed Ahmad Quadri

تحریر : ڈاکٹر سید احمد قادری