اگر عدلیہ کے فیصلے آنے سے پہلے فیصلے نہ سنائے جاتے، اپوزیشن کو کونے میں لگانے کی کوشش نہ کی جاتی، عوام بَدحال نہ ہوتے، مہنگائی کا عفریت مُنہ کھولے کھڑا نہ ہوتا، انتظامیہ میں بلاوجہ اکھاڑ پچھاڑ نہ ہوتی، قدم قدم پہ جھوٹ کی آڑھت نہ سجائی جاتی، قوم کو دکھائے گئے سہانے سپنوں کی تعبیر اُلٹ نہ ہوتی اور ریاستِ مدینہ کی تشکیل کی طرف ایک قدم بھی اٹھایا گیا ہوتا تو انتشار کی سرسراہٹیں آج فضاؤں میں سنائی نہ دے رہی ہوتیں۔حکومتی کارکردگی کا عالم یہ کہ ”صاحب نے کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا، بارہ آنے”۔ اِس بحث میں پڑے بغیرکہ تحریکِ انصاف کو حقِ حکمرانی” مِلا” یا ”عطا” کیا گیا، حقیقت یہی کہ بوکھلائے ہوئے حکمرانوں کا ”نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں”۔ جس کی بنیادی وجہ جو ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہی کہ تحریکِ انصاف میںکئی ”ولیٔ کامل” تشریف فرما ہیں جن پر الہامی کیفیات طاری ہوتی رہتی ہیں۔
فواد چودھری اور فیاض چوہان ان اولیاء کے سرخیل۔ جب سے مرکز اور پنجاب میں فواد چودھری اور فیاض چوہان نے اطلاعات ونشریات کا قلمدان سنبھالا ہے تب سے یہ ”کُرلاتے کُرلاتے” تھک بلکہ ”ہَپھ” گئے کہ میاں نوازریف اور آصف زرداری اپنے آخری الیکشن لڑ چکے اور اب اِن کا ٹھکانہ جیل ہے۔ یہ دونوں حضرات چونکہ ہر وقت ”حالتِ جذب” میں رہتے ہیں اِس لیے اِن کی باتیں مانے بنا کوئی چارہ نہیں۔ اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی (حالانکہ ”سپریم جج” فوادچودھری تو پہلے ہی فیصلہ سنا چکے)، 24 دسمبر کو میاں نوزشریف کی قسمت کا فیصلہ ہو جائے گااور گمانِ غالب کہ میاں صاحب ایک دفعہ پھر اڈیالہ جیل میں ہوںگے۔ یہی وجہ ہے کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی احتجاج کے لیے یک زبان ہو چکیں۔ دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے اجلاسوں میں فیصلہ کیا ہے کہ میاں نوازشریف کو سزا اور آصف زرداری کی گرفتاری کی صورت میں وہ عوام کو سڑکوں پر لائیںگی۔
عوامی رابطہ مہم چلانے اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے اِس فیصلے میں اگر کوئی قصوروار ہے تو صرف حکومتی وزراء جن کے بیانات نے نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کو ایک صفحے پر کر دیا ۔اگر ایک طرف نوازلیگ نیب پر حکومت سے مِلی بھگت کا الزام دھر رہی ہے تو دوسری طرف کم وبیش یہی الزام پیپلزپارٹی کا بھی ہے۔ بلاول زرداری نے کہا ”جے آئی ٹی رپورٹ کا وزیروں کو کیسے پتہ چلا؟۔ چیف جسٹس جے آئی ٹی رپورٹ پر تبصرہ کرنے والے وزراء کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کریں”۔ میاں نوازشریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ”میں نے سیاست کو کرپشن نہیں، خدمت کا ذریعہ بنایا۔ میں اور میرا خاندان ماضی میں بھی احتساب کا سامنا کر کے سرخرو ہوچکا ہے۔ ہمارے خلاف مقدمات کی وجوہات عوام جانتے ہیں۔ تمام مقدمات مفروضوں اور اندازوں پر مبنی ہیں”۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت (نون لیگ) پر کمیٹی روم کے دروازے بند کر دیئے گئے اور نوازلیگ کو قائدِحزبِ اختلاف (میاں شہبازشریف) کے کمرے میں اجلاس کرنا پڑا۔اِس اجلاس میں طے پایا کہ میاں نوازشریف کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں نون لیگ کا بارہ رکنی ایڈوائزری بورڈ معاملات دیکھے گا ۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے عوامی رابطہ مہم 30 دسمبر کے ورکر کنونشن سے شروع کی جائے گی۔ مریم اورنگ زیب کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی جو میڈیا سے رابطہ رکھنے کے علاوہ حکومت کے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کا جواب دے گی۔ اپوزیشن جماعتوں کے اپنی صفیں درست کرنے کے اِن اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں سیاست انتشار میں ڈھل جائے گی جو ملک کے لیے بہتر ہے نہ قوم کے لیے۔ یہ بھی عین حقیقت کہ اپوزیشن تو اپنے بیانات میں بار باریہ پیغام دیتی رہی ہے کہ ”نہ چھیڑ ملنگاں نوں” لیکن تحریکِ انصاف کو ”ہَلّے گُلے” کا شوق ہی بہت ہے اور حکومت میں آنے کے باوجود وہ ابھی تک ڈی چوک اسلام آباد کے دھرنے سے باہر نہیں آسکی ۔
تحریکِ انصاف کے زعماء کہتے ہیں کہ اپوزیشن ”ایویں خوامخواہ رَولا” ڈالتی رہتی ہے کہ نَیب حکومت سے ملی ہوئی ہے اور جو کچھ اپوزیشن کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ سب ہماری ”کرشمہ سازیاں” ہیں حالانکہ اپوزیشن کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں۔ نیب کا کام تفتیش کرناہے جس کے لیے وہ کسی بھی ”شریف” کو 90 دنوں تک ”اندر” کر سکتی ہے۔ اب اگر نیب تمامتر کوششوں اور کاوشوں کے باوجود ملزم کو مجرم ثابت کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اِس میں بیچاری نیب کا کیا قصور؟۔ سچی بات ہے کہ ہمیں تو نیب پر ترس آنے لگا ہے۔ وہ بھاگ دوڑ کرکے بندہ ”اندر” کرتی ہے اور ہائیکورٹ سزا معطل کرکے اُس کی ساری محنت پر پانی پھیر دیتا ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں یہی ہوا کہ احتساب عدالت نے شریف خاندان کو سزا سنائی اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دی۔ اب اگر العزیزیہ اور فلیگ شِپ ریفرنسز میں احتساب عدالت نے سزا سنائی اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دی تو پھر نیب کے ”پَلّے” کیا رہ جائے گا؟۔ویسے اب کی بار نوازلیگ نے ورکرز کو متحرک کرنے کی پوری تیاری کی ہوئی ہے۔ اگر میاں نوازشریف کو سزا ہوتی ہے تو وہ انتشار کا پیش خیمہ ثابت ہوگی جس میں کسی کا بھی بھلا نہیں ہوگا۔ یہ انتشار یقیناََ جمہوریت کے لیے سُمِ قاتل ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ ”جمہوری دَر” ایک دفعہ پھر بند کر دیا جائے۔
ہم پہلے بھی عرض کر چکے کہ اگر پچھلے چار ماہ میں حکومت نے کچھ کرکے دکھایا ہوتا تو یہ صورتِ حال نہ ہوتی لیکن حکمرانوں نے اور کچھ نہیں کیا سوائے عوام کا خون نچوڑنے کے۔ اِن چار ماہ میں لگ بھگ ایک ہزار اَرب روپے کا خون نچوڑا جا چکا اور مزید نچوڑنے کی تیاری۔ مِنی بجٹ کی آمد آمد ہے اور سارے حکومتی دانشور سر جوڑ ے بیٹھے ہیں کہ ”گُناہ ٹیکس” سمیت 45 مختلف ٹیکس لگائے جا چکے، اب کون سا نیا ٹیکس لگایا جائے۔ دانشوروںکے چیئرپرسن افلاطون نے کہا ”قطاراندر قطار تشریف فرما دانشوران! آپ اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اقوامِ عالم ہمیں گھاس ڈالنے کو تیار نہیں۔ ہمم کشکولِ گدائی لیے دَربدر پھرے لیکن ملا بقدرِاَشکِ بُلبل، جس سے ہماری ایک ”داڑھ” بھی گیلی نہیں ہوئی۔ اُدھر پھڈے باز آئی ایم ایف ہر میٹنگ میں کوئی نہ کوئی نئی ”اُڑچن” ڈال دیتا ہے۔ ہم تو آئی ایم ایف کے اتنے ”تھَلّے” لگے ہوئے ہیں کہ ہم نے ”اندرکھاتے” ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت 150 تک لے جانے کی حامی بھی بھر لی ہے لیکن آئی ایم ایف کے اور بھی کئی مطالبات ہیں جنہیں پورا کرنا ہمارے بَس کا روگ نہیں۔
اِس لیے ”ہماری یہ مجبوری ہے، ٹیکس لگانا ضروری ہے”۔ ویسے بھی حکومت میں آنے سے پہلے میں لمبی لمبی چھوڑ چکا ہوں،اِس لیے میری عزت کا بھرم رکھتے ہوئے نئے ٹیکس لگانے کے لیے جلد از جلد ”مفیدمشورے” دیں تاکہ مِڈ ٹرم انتخابات سے پہلے ہم قوم کو مُنہ دکھانے کے قابل ہو سکیں”۔ یہ تو ہمیں بھی معلوم کہ حکومت ”اندرواندری” مِڈٹرم” انتخابات کی تیاری کر رہی ہے کیونکہ جن چار ووٹوں کے بَل پریہ آٹھ جماعتی اتحاد کھڑا ہے، وہ کسی وقت بھی لرزہ بَراندام ہو سکتا ہے۔ اخترمینگل اور ایم کیوایم ابھی سے آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ اخترمینگل ،آصف زرداری سے ملاقات کر چکے جس پر حکومتی حلقوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ ایم کیوایم کے میئر وسیم اختر نے بھی دھمکی دیتے ہوئے کہہ دیا کہ حکومت ایم کیو ایم کے ووٹوں کے بَل پر کھڑی ہے۔ ویسے بھی عمران خاں کوئی آصف زرداری تو نہیں کہ افہام وتفہیم سے فلاح کی راہ نکال سکیں۔ بلیک میل ہونا کپتان کی سرشت میں شامل نہیںجبکہ اُنہیں چاروں طرف سے اتحادی بلیک میلروں نے گھیر رکھا ہے جن کے مطالبات پورے کرنا خاںصاحب کے بَس کا روگ نہیں۔ اِس لیے اُن کے نزدیک ”مِڈٹرم انتخابات ”بُرا آپشن نہیں۔ سوال مگر یہ کہ جس انتشار کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں، اُس کا انجام مِڈٹرم انتخاب ہوگا یا کچھ اور۔ ۔۔۔