پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ نہ ہونے کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداداس فلسفہ کو ہی نہیں سمجھ پائی کہ دین اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے ۔ جب تک اس کا مکمل نفاذ نہیں کیا جائے گا نہ تو قائد اعظم کے وژن اور نہ ہی علامہ اقبال کی فکر کے مطابق پاکستان میں اسلامی اور دو قومی نظریہ کی روشنی میں مدینہ کی فلاحی ریاست قائم ہو سکتی ہے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اکابرین کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے، قرآن کے صاف احکامات کہ نیکیوں میں تعاون کرو اور منکر سے روکو پر عمل نہیں کر رہی۔ یہی وجہ ہے سیاستدان پارلیمنٹ میں اعلانیہ اسلام خلاف قانون بنا کر زبردستی مسلمانوں پر ٹھوستے رہے ہیں۔یہ بات بھی درست ہے کہ دین کی فکر ر رکھنے والے اپنے اپنے طور پر دین کی خدمت کرتے ہیں۔ کوئی مساجد بنا رہا ہے۔ کوئی دینی مدارس میں بچوں کی دینی تعلیم کے انتظامات کر رہا ہے۔ کچھ دین سمجھانے کے لیے ملکوں ملک جاتے ہیں ۔ لوگوں کی نمازیں درست کراتے ہیں۔ لوگوں کو دین کی طرف راغب کرتے ہیں۔ مگر اس طرح اسلام شمنوں نے ہمارے ایک بڑے طبقے کو ملکی معاملات، یعنی سیاست سے دور کر دیاہے۔ مولانا موددی دین کی صحیح سمجھ رکھتے ہیں۔علامہ اقبال کے مطابق دین کو سیاست سے الگ نہیں سمجھتے اور کہ پورے کے پورے دین کی بات کرتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال:۔
جلالِ بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو۔ ۔ ۔
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی چنگیزی
مولانا موددی ہیں کہ جنہوں نے اپنی ساری زندگی اسی میں کھپا دی کہ پاکستان میں پورا کا پوراسلام جب تک نفاذنہیں ہو گا۔ انہوں نے ثابت کیاکہ مدینہ کی جس ریاست کی ہم بات کرتے ہیں اس میں رسولۖاللہ پورے کے پورے حکمران تھے۔ قانون دینے والے تھے۔ انتظامیہ کے سربراہ تھے۔ عدلیہ کے سربراہ تھے۔قانون کا نفاذ کرنے والے تھے۔بیرون ملک تعلوقات قائم کرنے والے تھے۔ یعنی مملکت کے تمام کے تمام اُمور رسول ۖاللہ کے پاس تھے یہی سیاست ہے۔ جب کہ ہمارا ایک بڑے طبقہ صرف تبلیغ میں ہی لگا ہوا ہے۔ جب تک ان کا ذہن تبدیل نہیں ہوتا اُس وقت تک مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست کے فوائد حاصل نہیں ہوسکتے۔اے کاش کے اسلام سے محبت کرنے والے سارے طبقے ایک دوسرے کو برداشت کرتے ۔ ایک دوسرے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتے تو منزل آسان ہو جاتی۔مگر اپنے کام اور مسلک کو صحیح اور دوسرے کو غلط ثابت کرنے میں منبر و مہراب تقریریں اور” فتنہ موددیت” جیسی کتابیں تک بھی لکھنے میں مصروف رہے۔
اس طرح قائد اعظم نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بر عظیم ہندو پاکستان میں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست طرز کی حکومت کے لیے تحریک پاکستان اُٹھائی تھی۔ اُس وقت بھی کانگریسی علماء نے قائد اعظم اور علامہ اقبال کی مخالفت کی تھی۔ کانگریسی علماء نے ہنددئوں کے قومی نظریہ، کہ قومیں اوطان یعنی وطن سے بنتیں ہیں کا ساتھ دیا تھا۔ مگر اس وقت بھی مولانا موددی اُٹھے اور مسلم قومیت کو ثابت کیا اور اسی بنیاد پر پاکستان بن گیا۔ دیو بند کے حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحب نے ہندئو نظریہ اوطان قومیت پر کتاب لکھی تھی۔مگر عام مسلمانوں نے اس پر کان نہیں دھرا۔ ”فتنہ موددیت” کتاب تبلیغی جماعت کے شیخ الدیث حضرت مولانا محمد ذکریہ صاحب نے چند غلط فہمیوں کی بنیاد پر مولانا موددی پر الزام لگائے ہیں۔
فتنہ موددیت میں لگائے گئے الزامات کو رد کرتے ہوئے۔” رَدِّ فتنہ موددیت” لکھی گئی ہے۔ جس کے مو لّف ہیں جناب ڈاکٹر سیّد انور علی صاحب۔ اس کے ناشر ہیں، ادارہ شہادت ِ حق ٨٠١ چھتہ شیخ منگلو جامع دہلی ١١٠٠٠٦ ہندوستان۔اس کا سن اشاعت ہے پہلا مئی ١٩٧٧ء میں دوسرا ، ١٩٧٨ء میںا ور موجودہ ١٩٧٩ء آفسیٹ ایڈیشن۔ یہ کتاب ہم نے ایک دوست سے اپنی ذاتی لائیبریری کے لیے منگوائی ہے۔ ڈاکٹر انور علی صاحب نے ”ردّ ِموددیت” میں ان الزامات کو مدلل دلائل سے ردّ کیاہے۔ڈاکٹر سید انور علی صاحب اس کتاب میں مولانا موددی کا تعارف لکھتے ہیں کہ مولانا موددی کے مورث اعلیٰ حضرت خواجہ قطب الدین مودد چشتی جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے داداپیرتھے۔ مولانا موددی نے مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد داخل ہوئے اورمولوی کاامتحان سیکنڈ کلاس میں پاس کیا۔اس کے بعد عربی ادب،تفسیرحدیث،منطق اور فلسفہ مختلف اساتذہ سے حاصل کی۔١٩١٨ء سے ١٩٢٨ء تک مختلف اخبارات کے ایڈیٹر رہے۔ دوسری جگہ مولانا موددی کے متعلق ہم نے پڑھا ہے کہ سکندر لودھی جس نے ٢ رمضان ٩١٢ ھ جس فوج کے ساتھ راجپوتوں کے مضبوط قلعہ تھنکر پر چڑھائی کی تھی اس فوج کے لشکر کے ہمراہ مولانا موددی کی خاندان کے بزرگ، شاہ ابو الاعلیٰ جعفر اپنے مریدان با صفا کے ساتھ شریک تھے ۔ اس لشکر نے راجپوتوں کے مضبوط قلعہ تھنکر کو فتح کیا تھا۔ اسی برزگ کے نام پر ان کا نام ابو لااعلیٰ موددی رکھا گیا۔
مولانا موددی اپنے خاندان کی روایت قائم رکھتے ہوئے علامہ اقبال کے کہنے پر ١٩٣٨ء میں حیدر آباد دکن سے ہجرت کر کے پنجاب کے علاقہ پٹھان کوٹ میں اسلام کی خدمت کے لیے منتقل ہوئے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ مولانا بیک وقت پیر،صوفی، مجدد، اللہ کے ہجرت کرنے والے، صحافی اور جدید علوم کے ماہر، سیاسی اور جہادی خاندان سے تعلق رکھنے والی شخصیت تھے۔اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ سید احمد شہید بریلوی کی دوعوتِ جہاد و نفاذ نظامِ اسلامی کے خاتمہ کے بعد بر عظیم ہند و پاکستان میں دعوت ِ اسلامی کے تمام دروازے بند ہو چکے تھے۔سیّدجمالالدین افغانی کی ” پان اسلامزم”، علامہ اقبال کی مسلمان جوانوں کو نظریاتی طور سرگرم کرنے اور مولانا محمد علی جوہر کی پکار نے جھنجھوڑا تھا۔ مگر اُس وقت اُٹھنے کی ہمت کوئی بھی نہیں کر رہا تھا۔ مولانا ابو اعلیٰ موددی اُٹھے اور کہاکہ ” اب وقت ضائع کرنے کا موقع نہیںرہا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میری آواز میں خلوص ہوا تو میرا جذبہ ناکام نہیں جائے گا” مولاناموددی نے اس کے لیے عملی جد وجہد کی بنیاد جماعت اسلامی کی شکل میں ١٩٤١ء میں رکھی۔
مولانا موددی نے منجمد قدیم نسلی مذہب کے بجائے ایک انقلابی نظریہ حیات اور ایک تحریک کی صورت میں پیش کیا۔اس تحریک نے اسلامی کے چہرہ کو بل لکل نکھار دیا ۔اسلام کوئی پوچا پاٹ کا مذہب نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی پر محیط ہے۔ اس کے لیے اسلام کا صحیح علم حاصل کرنا۔ مسلمانوں کی اخلاقی اصلاح کرنا۔مغربی تہذیب پر تنقید کرنا اور مسلح اور خفیہ تحریک نہیں بلکہ اعلانیہ جمہوری دین اسلام کو قائم کرنے کی جد وجہدکرنا۔مولانا موددی نے دعوت عام دی کہ” آئو ہم سب مل کر اللہ کی بندگی کریں۔ اس کے حکم پر چلیں۔ اس کا قانون دنیا پر نافذ کریں جو ہم سب کا مالک اور واحد اللہ ہے” ایسی سوچ اورانقلابی پروگرام والے،اس کام کو منطقی انجام تک پہنچانے والے، ایک انقلابی جماعت قائم کرنے والے کے کام میں غلط فہمیوں کی بنیاد پر ” فتنہ موددیت ”کتاب لکھنے کے بجائے اُس کے ہاتھ مضبوط کیے جاتے تو مدینہ کی اسلامی ریاست بننے میں آسانیاں پیداہوتیں ۔ اسلام کوپورا کا پورا مدنیہ کی اسلامی فلاحی جہادی ریاست دیکھنے کے خواہش حضرات کو” ردّ فتنہ موددیت” کا ضرور معالہ مطا لعہ کرنا چاہیے۔خیر جوہوا وہ ہو چکا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نازک دور میں دیندار طبقے کو ایک دوسرے کا مدد گار ہونا چاہیے۔ پرانی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیے۔اللہ نے اب ایسی حکومت دی ہے کہ جو ٧١ سال کی خرابیوں کو دور کر کے ملک میں مدینہ کی فلاحی ریاست بنانے کاعزم رکھتی ہے۔ سیاست کو دین سے علیحدہ سمجھنا چھوڑ کر پورے کے پورے دین کے نفاذ کے لیے حکومت کا ساتھ دیں۔ ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔