سعودی عرب (جیوڈیسک) سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کے ولی عہد ایک ’سیاسی یلغار‘ کی زد میں ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا پرنس محمد بن سلمان پر الزام ہے کہ ترک شہر استنبول میں خاشقجی کے قتل کا حکم انہوں نے ہی دیا تھا۔
یہی نہیں اب تو سرکردہ سیاستدان بھی ان سے پہلو بچا کر نکل جاتے ہیں۔ یہ اور کئی دیگر عوامل وہ اسباب ہیں، جن کے باعث ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد کا سیاسی مستقبل اب قطعی غیر یقینی ہو چکا ہے۔
بیونس آئرس میں جی ٹوئنٹی کی سربراہی کانفرنس کے موقع پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے تو شہزادہ محمد بن سلمان (جنہیں مختصراﹰ ایم بی ایس بھی کہا جاتا ہے) سے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا مگر کئی دیگر رہنما اس حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئے کہ کوئی انہیں عوامی سطح پر سعودی ولی عہد کے ہمراہ دیکھے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ محمد بن سلمان کو مبینہ طور پر سعودی صحافی جمال خاشقجی کے خوفناک قتل کا محرک سمجھا جاتا ہے، جس کی ریاض حکومت کئی مرتبہ تردید کر چکی ہے۔ خاشقجی کو اس سال اکتوبر کے اوائل میں ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں سعودی اہلکاروں نے بڑی بے دردی سے قتل کر کے ان کی لاش کے ٹکڑے کر دیے تھے۔
اس کے علاوہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے سعودی ولی عہد کے خلاف ایک مقدمہ بھی دائر کر رکھا ہے۔ اس مقدمے کی عدالتی کامیابی کا تو کوئی امکان نہیں لیکن اس نے محمد بن سلمان کی ذات کے حوالے سے ایک سیاسی رخ کا تعین بہرحال کر دیا تھا۔ اس مقدمے کا سعودی میڈیا میں کہیں بھی ذکر دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا تھا۔
نومبر کے اواخر میں جب بیونس آئرس جاتے ہوئے پرنس محمد اپنے دورے کے پہلے دو مرحلوں کے دوران بحرین اور ابوظہبی میں رکے تھے، تو وہاں تو ان کا حسب توقع پرجوش استقبال کیا گیا تھا۔ اس دورے کے اختتام پر سعودی ولی عہد بیونس آئرس گئے تھے۔ لیکن اس سے قبل ان کے دورے کی ایک اور منزل تیونس بھی تھا۔
تیونس میں ان کے خلاف عوامی سطح پر مظاہرے بھی کیے گئے تھے، جن کا اہتمام تیونس کے صحافیوں کی تنظیم نے کیا تھا۔ ان مظاہروں کے دوران مظاہرین نے جو بینر اٹھا رکھے تھے، ان پر ایسے الفاظ بھی درج تھے کہ مثلاﹰ ’سعودی ولی عہد امن اور علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں‘۔
بیونس آئرس سے واپسی پر شہزادہ محمد بن سلمان کو مراکش بھی جانا تھا لیکن وہاں بھی ماحول ایسا تھا کہ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ مراکش کے عوام انہیں خوش آمدید کہنے پر تیار نہیں ہوں گے۔ اس لیے مراکش کے سفر کا ارادہ ہی ترک کر دیا گیا تھا۔
الجزائر میں سعودی مہمان کا استقبال تو کیا گیا تھا لیکن ان سے ملاقات کرنے والوں میں الجزائر کے صدر عبدالعزیز بوطفلیکہ شامل نہیں تھے۔ بوطفلیکہ نے سعودی شہزادے سے اپنی ممکنہ ملاقات کی منسوخی کی وجہ اپنی خراب صحت بتائی تھی۔ مزید یہ کہ محمد بن سلمان کا اردن کا ایک مجوزہ دورہ بھی اردن کے عوام میں اس قدر غصے کا سبب بنا کہ یہ دورہ بھی شروع ہونے سے پہلے ہی منسوخ کر دیا گیا تھا۔
محمد بن سلمان کا بیونس آئرس کا دورہ سعودی عرب میں داخلی طور پر ولی عہد کی سیاسی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش بھی تھا، جو کامیاب رہی۔ سعودی عرب میں حکمران شاہی خاندان کا سب سے بڑا مفاد اس بات سے وابستہ ہے کہ ملک میں داخلی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔ سعودی شاہی خاندان کی بقا اسی استحکام سے مشروط ہے۔
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
شدید داخلی عدم استحکام کی صورت میں خاندان سعود کی حکمرانی بھی خطرے میں ہو گی۔ اسی لیے سعودی حکمران اپنے خاندان کے ارکان کی انفرادی کامیابی یا ناکامی سے کہیں زیادہ اہمیت اپنی اجتماعی کامیابی کو دیتے ہیں۔ پھر شاہی خاندان کے تمام اہم فیصلے بھی اس کے ارکان اکثریتی رائے سے ہی کرتے ہیں۔
سعودی عرب میں شاہی خاندان اور اس پوری ریاست کے سیاسی مستقبل کے لیے ریاض کے امریکا کے ساتھ روابط انتہائی اہم ہیں۔ امریکا ایک طرح سے اس قدامت پسند عرب بادشاہت کی محافظ طاقت کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ اب جب کہ سی آئی اے کی طرف سے جمال خاشقجی کے قتل کا الزام ولی عہد محمد بن سلمان پر عائد کیا جاتا ہے، سعودی امریکی تعلقات کے ایک حصے کو گہری چوٹ لگ چکی ہے۔
دنیا ابھی یہ نہیں بھولی کہ امریکی صدر ٹرمپ نے چند ہفتے قبل یہاں تک کہہ دیا تھا کہ امریکا کی تائید و حمایت کے بغیر تو سعودی شاہی خاندان چند ہفتوں سے زیادہ اقتدار میں نہیں رہ سکے گا۔
ایک مؤقر سیاسی جریدے کے مطابق، ’’سعودی عرب کے ساتھ امریکی اتحاد کو آج کل امریکا میں اتنی زیادہ حد تک کڑی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے کہ اس کی 1973ء میں تیل کے بحران کے بعد سے لے کر اب تک کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔‘‘
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
سعودی حکومت اس وقت اپنی پوری کوششیں کر رہی ہے کہ اس کی، خاص طور پر ولی عہد کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم رکھا جائے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اب یمن کی جنگ کے حوالے سے پہلی بار عمان میں ایسے امن مذاکرات کی بات بھی کی گئی ہے، جن میں سعودی عرب خود بھی واضح طور پر شریک ہو گا۔
امریکی حکومت کی سیاسی ترجیحات کو ہی مدنظر رکھتے ہوئے ریاض میں سعودی حکمرانوں نے اب یہ فیصلہ بھی کر لیا ہے کہ بے وطن فلسطینیوں کو آئندہ سعودی عرب جانے کے لیے کسی ویزے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
اس فیصلے کا درپردہ تعلق فلسطینی اسرائیلی تنازعے سے بھی ہے۔ یہ بات اس امر کا اشارہ بھی ہے کہ امریکا کی تائید و حمایت میں سعودی عرب اپنی خارجہ سیاسی خود مختاری کے ایک حصے کی قربانی تو دے ہی چکا ہے۔
ان سب اقدامات کے باوجود سعودی بادشاہت چند ہی روز بعد نئے سال 2019ء کے آغاز پر اپنے لیے جو مستقبل دیکھ رہی ہے، وہ کافی حد تک غیر واضح ہے، خاص طور پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ذات کے حوالے سے۔