علی رضا عابدی سپرد خاک، قتل کا مقدمہ درج نہ ہوسکا، تحقیقات جاری

Ali Raza Abidi

Ali Raza Abidi

کراچی (جیوڈیسک) متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کو آہوں اور سسکیوں کے درمیان سپردخاک کردیا گیا، تاہم ان کے قتل کا مقدمہ اب تک درج نہیں کیا جاسکا، دوسری جانب واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔

واضح رہے کہ ایم کیو ایم کے سابق رہنما اور قومی اسمبلی کے سابق رکن علی رضا عابدی کو نامعلوم ملزمان نے گزشتہ روز ڈیفنس فیز 5 کے علاقے خیابان غازی میں ان کے گھر کے باہر نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں وہ دم توڑ گئے تھے۔

پولیس نے اس واقعے کو ٹارگٹ کلنگ قرار دیا تھا۔

علی رضا عابدی کی نماز جنازہ آج ظہرین کے بعد امام بارگاہ یثرب میں ادا کی گئی، نماز جنازہ علامہ حسن ظفر نقوی نے پڑھائی۔

بعدازاں ڈیفنس قبرستان میں ان کی تدفین کردی گئی۔

علی رضا عابدی کے قتل میں استعمال کیے گئے اسلحے کی فرانزک رپورٹ پولیس کو موصول ہوگئی، جس کے مطابق یہ اسلحہ ماضی میں بھی استعمال ہوا۔

انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب کے مطابق اسی اسلحے سے 10 دسمبر کو لیاقت آباد میں احتشام نامی شخص کو قتل کیا گیا تھا۔

راجہ عمر خطاب کے مطابق احتشام کے قتل میں بھی 30 بور کا پستول استعمال ہوا تھا، جسے 3 گولیاں ماری گئی تھیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اہلخانہ کے مطابق احتشام کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں تھا۔

راجہ عمر خطاب کے مطابق علی رضا عابدی پر حملے میں دو پستول استعمال کیےگئے، حملہ آور کے دونوں ہاتھوں میں پستول تھے، جس پستول سے زیادہ گولیاں چلیں وہ احتشام کے قتل میں بھی استعمال ہوا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دوسرے پستول سے ایک گولی چلائی گئی، جو ابھی کسی قتل میں میچ نہیں ہوئی۔

پولیس حکام نے مزید بتایا کہ علی رضا عابدی کی گھر واپسی کا یہ وقت نہیں تھا، انہیں اپنی فیملی کو لے کر کہیں جانا تھا، اسی لیے شاید وہ جلدی گھر آئے۔

اس سے قبل سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ساؤتھ پیر محمد شاہ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا تھا کہ علی رضا عابدی کے گارڈ قدیر کو حراست میں لے لیا گیا ہے، جو فائرنگ کے جواب میں فوری کارروائی کے بجائے گھر کے اندر چلا گیا اور علی رضا عابدی کے والد سے ملزمان پر جوابی فائرنگ کے لیے ہتھیار مانگا۔

انہوں نے بتایا کہ گارڈ کے دروازہ کھولنے کے بعد فائرنگ ہوئی۔

ایس ایس پی پیر محمد شاہ کے مطابق گارڈ قدیر کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا اور اسے علی رضا عابدی کے گھر پر تعینات ہوئے ڈیڑھ سے دو ماہ ہوئے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ علاقے میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں میں دو تین مقامات پر ملزمان کی نشاندہی ہوئی ہے جبکہ اس حوالے سے فارنزک تحقیقات جاری ہیں کہ واقعے میں استعمال ہونے والا ہتھیار پہلے کبھی کسی واقعے میں استعمال ہوا یا نہیں۔

واقعے کی سی سی ٹی وی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ علی رضا عابدی کی گاڑی جیسے ہی گھر کے دروازے پر رُکی، موٹر سائیکل پر تعاقب میں آنے والے دو ملزمان قریب آئے، پیچھے بیٹھے ملزم نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے علی رضا عابدی پر پے در پے گولیاں چلائیں اور فرار ہو گئے۔

علی رضا عابدی کوتشویشناک حالت میں قریبی اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ کچھ ہی دیر بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔

اس افسوس ناک واقعے کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح کراچی سمیت پورے ملک میں پھیل گئی، پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری فوری موقع پر پہنچی اور شواہد اکٹھے کیے گئے۔

علی رضا عابدی کی میت پوسٹ مارٹم کے لیے جناح اسپتال لائی گئی جہاں ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ انہیں گردن اور سینے پر تین گولیاں لگیں۔