واشنگٹن (جیوڈیسک) وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور خاتون اول میلانیا ٹرمپ کرسمس کے موقع پر عراق کا غیر علانیہ دورہ کیا ہے جہاں انھوں نے امریکی فوجیوں سے ملاقات کی ہے۔
وائٹ ہاؤس پریس سکریٹری، سارا سینڈرز نے بدھ کی شام ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ ’’کرسمس کی رات گئے وہ غیر علانیہ دورے پر واشنگٹن سے روانہ ہوئے، تاکہ ہماری فوجوں اور اعلیٰ فوجی قیادت سے ملاقات کرکے اُنھیں کرسمس کی مبارکباد دیں اور اُن کی خدمات، کامیابی اور قربانیوں پر شکریہ ادا کر سکیں‘‘۔
خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ کا عراق سے فوجیں واپس بلانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ صدر کی جانب سے تنازع کے علاقے کا یہ پہلا دورہ ہے۔ دورے کا پروگرام خفیہ رکھا گیا۔
ٹرمپ نے شام سے فوج کے انخلا کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ داعش کو ’’تقریباً شکست‘‘ ہوچکی ہے، اور دولت اسلامیہ باقی نہیں رہی۔
دہشت گرد گروپ کے لیے داعش کا لفظ استعمال کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا ’’میں نے شروع ہی سے یہ بات واضح کردی تھی کہ شام میں ہمارا مشن داعش سے مضبوط عسکری ٹھکانے چھیننا ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’آٹھ سال قبل، ہم تین ماہ کے لیے وہاں گئے تھے، اور تب سے ہم واپس نہیں آئے‘‘۔ صدر نے مزید کہا کہ شام میں امریکی موجودگی ’’ہمیشہ کے لیے نہیں تھی‘‘۔
ٹرمپ نے کہا کہ ترکی نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ وہ خطے میں داعش کی ’’باقیات‘‘ کا قلع قمع کرے گا۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’’علاقے کے ملکوں کو آگے بڑھ کر اپنے مستقبل کی ذمہ داری سنبھالنی ہوگی‘‘۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ شام سے اندازاً 2000 امریکی افواج کا ’’باضابطہ انخلا‘‘ ہوگا۔
ایک ’ڈائننگ ہال‘ میں صدر اور خاتون اول نے فوجیوں سے ملاقات کی، جس دوران اُنھوں نے فوجیوں کے ساتھ تصاویر کھچوائیں اور آٹوگراف پر دستخط کیے۔
ٹرمپ کے دورہٴ عراق سے ایک ہی روز قبل صدر نے اوول آفس سے وڈیو کانفرنس کے ذریعے دنیا بھر میں تعینات فوجی اہلکاروں سے خطاب کیا۔ کال کے بعد، کچھ میڈیا تنظیموں نے اُن پر تنقید کی کہ 2002ء کے بعد وہ پہلے صدر ہیں جنھوں نے کرسمس کے موقع پر امریکی فوجیوں سے ملاقات نہیں کی۔ پینٹاگان نے کہا ہے کہ عراق میں اندازاً 5200 امریکی افواج تعینات ہیں۔