شِیر خوار سے شیر جوان تک

Kashmir Freedom

Kashmir Freedom

تحریر : شاہ بانو میر

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی گراں قدر نعمتوں میں سے قیمتی نعمت آزادی ہے
آزادی کسے کہتے ہیں
اس کا احساس اس کی قیمت ہم جیسے لوگ بالکل نہیں جانتے
بغیر محنت کے جو نعمت عطا ہو جائے اس پر شکر کرنے والوں کی نعمت کو بڑھا دیا جاتا ہے
اور
نا قدرے نا شکرے کی نعمت کو زوال میں بدل دیا جاتا ہے
جیسے
آج ہم نے کبھی غور نہیں کیا
کہ
اپنی پیدائش پر ہمارا اختیار کیا تھا؟
بالکل نہیں
دنیا میں ہندو عیسائی یہودی بدھ مت اور نجانے کتنے مذاہب ہیں
ہم کہیں بھی کسی بھی گھر میں پیدا ہو سکتے تھے
مگر
ہمیں اس رب عظیم نے پسند کیا تو ہم پر رحم کیا ہمیں مسلمان گھر میں پیدا کیا
اس سے بڑھ کر احسان کیا کہ
پاکستان میں پیدا کیا
مزید احسان یہ کیا کہ
ہمیں 1947 سے پہلے کسی غلام خطے میں کمزور حیثیت میں پیدا نہیں کیا
بلکہ
شاندار کامیاب عظیم آزاد پاکستان میں پیدا کیا
آزادی کیا ہے
ملک کیا ہے
اسلام کیا ہے ؟
مسلمان انعام کیوں ہے؟
یہ سب ہم ناشکرے نا قدرے کیسے جان سکیں گے
ہم تو وہ ہیں جنہوں نے آزادی کا مفہوم صرف زمین کا ٹکڑا سمجھا
جس پر رہنا تھا
اس کے اندر ہم نے دنیا بھر کی غلامی اپنے ذہنوں پر حاوی کی
کہ اپنے اسلاف کے کارنامے
اپنی دینی غیرت اپنے تشخص کو کہیں دور کھو بیٹھے
یہ بھول گئے
کہ
طاقتور اسلامی ملک خود بھی “” بے خوف”” جیتا ہے
اور
اس کے زیر سایہ دوسرے کمزور ہمسایہ ممالک بھی سکھ اور چین سے رہتے ہیں
کیونکہ
ہمارا دین تعلیمی نصاب میں ختم کیا جا رہا ہے
دنیا بھر کی اول جلول چیزوں کو اہم سمجھ کر انہیں نصاب کا حصہ بنایا جا رہا ہے
اسی لئے ہماری نئی نسل تاریخی جغرافیائی پیچیدہ مسائل سے بھی آگاہ نہیں ہیں
کثیر دولت خرچ کر کے والدین جدید سکولوں میں وہ سلیبس پڑھا رہے ہیں
جن میں کل کی آہنی اسلامی تاریخ آج”” موم “”بنا کرلکھی گئی ہے
نہ لکھنے والوں نے درد سے لکھا
اور
نہ پڑھانے والوں نے سچائی سے پڑہایا
نتیجہ
ہم آدھے تیتر آدھے بٹیر بن گئے
اور
وہ جو ہمیں اپنا محافظ سمجھتے تھے
وہ ہمیں کبھی فلسطین سے کبھی کشمیر سے پکارتے رہے
ہم بھی بے حس ہو گئے
بھارت کے ساتھ اپنے مضبوط تجارتی مفادات نے ان طاقتور ملکوں
کے کان بند کر دیے
اور
ہم
جن سے ان کی امیدیں وابستہ تھیں
ہم نے بھی انہیں شور سمجھ کر نظر انداز کر دیا
مگر
ہمارے مردہ احساسات کو اس وقت تازیانہ لگتا ہے
جب وادی میں بربریت کی ظلم کی نئی کہانیاں ترتیب دی جاتی ہیں
لاکھوں شھداء جس میں ہر گھر شامل ہے
دنیا کو دکھائی نہیں دیتا
تو کیا ہم بھی آنکھوں سے اندھے ہو گئے
کانوں سے بہرے ہو گئے
بیٹیاں روتی ہیں تڑپتی ہیں
ظلم کے خلاف دہائیاں دیتی ہوئیں پاکستان کو پکارتی ہیں
بلاتی ہیں کسی محمد بن قاسم کو
معصوم بچوں کی دنیا اندھیرے میں بدل دی
انہیں پیلٹ گنز سے بصارت سے محروم کر دیا گیا
سات دہائیوں سے جاری مظالم کے اتنے حقائق اتنے شواہد زندہ موجود ہیں
جنہیں صرف دنیا کے سامنے بہترین انداز سے پیش کرنے کی ضرورت ہے
کون پیش کرے گا؟
کیا جب تک بیرونی میڈیا رحم نہیں کھاتا
پاکستان کے ہوتے ہوئے یہ یونہی کٹتے رہیں گے خون بہتا رہے گا؟
چرب زباں سیاستدانوں کی زبان کا تیکھا پن کسی بڑے ملک کے سامنے کیوں گونگا ہو جاتا ہے؟
پاکستان
سنو سمجھو
اٹھو
ان کفن پوش خاموش بیٹوں کی آخری پکار سنو
پاکستان کے پرچم سے کفن سجائے ہوئے ہیں
کون ہے جو ان کی فریاد سنے؟
وادی کی ستر سال سے جاری جد و جہد میں بلا کی تیزی شہید برہان وانی کے بعد آ گئی
شہادتوں کی بڑہتی ہوئی تعداد بتا رہی ہے
غلامی کی طویل رات ختم ہونے کو ہے
سال 2018 میں صرف نومبر کے مہینے میں 240 کشمیریوں کا بے گناہ خون سوال کر رہا ہے
آخر کب تک کب تک؟
ہم ذرا اپنے آپ کو دیکھیں
کس انداز سے ہم ان کے ساتھ ہوئے انسانی مظالم پر آواز اٹھاتے ہیں؟
کیا ہمارا گھروں سے نکلنا وقت دینا اور احتجاج کرنا کوئی رنگ لا رہا ہے؟
اگر
سب بے سود اور بےفائدہ ہے تو
سوچنے کی ضرورت ہے
کہاں اخلاص میں طریقہ کار میں کمی ہے؟
کشمیر کے مناظرسوچتے ہی ہر درد مند آبدیدہ ہو جاتا ہے
کیا آج ہم آبدیدہ ہوتے ہیں؟
اگر ایسا نہیں ہے تو سمجھ لیجیۓ
ہمارا احتجاج اخلاص سے خالی محض رسمی کاروائی ہے
اور
ایسے مظاہرے بے فائدہ ہیں محض ویب سائٹس کا کاروبار
ٹی وی پر نمائش
جس کا کشمیر اور کشمیریوں کو کوئی فائدہ نہیں
عیار طاقتور جانتا ہے کہ
مظاہرے میں جان جوش اور غضب کتنا ہو تو پُر اثر ہوتا ہے
ہمیں اب اپنی ہر صدا کو پُر اثر بنانا ہے
یہ جنت ارضی کشمیر ہے
جس کی زمین ستر سال سے کھلکھلاتے معصوموں کی قلقاریوں سے نہیں گونج رہی
بلکہ
وہاں تو شیِر خوار سے لے کر شیر جوان ہی موت کے نیزے کی انی اپنے حلقوم میں چھبتا دیکھ رہا ہے
کشمیر کی ماں کی آہ و بکاہ ستر سالوں سے فضا کو سوگوار بنائے ہوئے ہے
آئے روز گھر سے جوان بیٹوں کو درندے پکڑتے ہیں الزام لگا کر عقوبت خانے لے جاتے ہیں
پھر بہیمانہ تشدد کر کے آزادی کا نہیں موت کا پروانہ دیتے ہیں
ایک نظر ڈالیں
سلگتے کشمیر پر
نہ وہاں سکون ہے اور نہ ہے اطمینان سہما ہوا موت کا راج ہے
ذہنی سراسیمگی اور خوف طاری ہے
سوچنا ہوگا
باوجود قربانیوں کے آخر کشمیر کیوں آزاد نہیں ہو سکا ؟
اس لئے کہ جن پر وہ انحصار کرتے ہیں
“” وہ ہم ہیں ”
اور
ہم کیا ہیں؟
اقتدار اقتدار کی بھوک میں دہائیوں سے مبتلا
ہم بھول گئے اپنی تخلیق کا مقصد
ہمیں صرف اپنے لئے نہیں جینا تھا
اللہ رب العزت نے ہمیں دوسروں کی امیدوں کا مرکز بنایا تھا
خوں خوں وادی کے لئے جب کوئی احتجاج کیا جاتا ہے
تو شائد وہ درد وہ احساس جو ظلم کے خلاف ہونا چاہیے
ہم پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں
شائد اسی لئے دنیا بھر میں ہونے والے مظاہرے ظالم کا کچھ نہیں بگاڑ سکے
مگر
کشمیر کی تحریک دو سال سے زیادہ خونیں ہوتی جا رہی ہے
مگر
نجانے کیوں دنیا بھر کے برق رفتار میڈیا کے ریڈار سے کشمیر اور وہاں بہنے والا لہو
غائب ہوجاتا ہے
ایسے وقت میں بھارت سے ان کے نئے مفادات سے جڑ جاتے ہیں
آسمان تک بلند ہوتی آہ و بکاہ جن میں معصوم بیٹیوں سے لے کر
ماوؤں کی دلدوز چیخیں بھی شامل ہیں
ساری دنیا سن رہی ہے اور خاموش تماشائی ہے
مگر
اللہ کی تائید اور کشمیریوں کی اپنی انتھک جدو جہد آزادی سے
انشاءاللہ
کشمیر کا مسئلہ اپنے حتمی انجام کو پہنچنے کو ہے
مظلوم کے ساتھ پاکستان تو ہم آواز ہے ہی
اب سکھ آبادی بھی ظلم کے خلاف برملا آواز سے آواز ملا رہی ہے
وادی کشمیر بہت سہ چکی اب تو اس کو پہچان مل کر رہے گی
کیونکہ
کب تک اس لہو لہو کشمیر میں
شیِر خوار سے لے کر شیر جوان قربان ہوتے رہیں گے؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر