فلسطینی اسیران کو غیرمسبوق صہیونی اجتماعی سزائوں کا سامنا ہے: فلسطین

Punishment

Punishment

فلسطین (جیوڈیسک) فلسطینی محکمہ امور اسیران ومحررین کی طرف سے جارہ کردہ سالانہ رپورٹ میں سال 2018ء کو اسرائیلی ریاست کی طرف سے فلسطینی اسیران کے خلاف اجتماعی سزائوں کا سال قرار دیا ہے۔

فلسطینی محکمہ اسیران کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ رواں سال اسرائیلی ریاست اور اس کے اداروں کی طرف سے فلسطینی اسیران کے خلاف کئی نئے ظالمانہ قوانین منظورکیے گئے۔ یہ تمام قوانین قیدیوں کو اجتماعی سزا دینے کے ریاستی جرائم میں شامل ہیں۔

ان میں فلسطینی مزاحمتی خاندانوں کی شہر بدری کا قانون، فلسطینی اسیران کے اہل خانہ کی کفالت پر پابندی، سزائوں میں تخفیف کا خاتمہ، اسیران کو سزائے موت دینے، زخمیوں اور اسیروں کے علاج کے لیے مالی معاونت پر پابندی، بغیر کسی شبے کے قیدیوں اور عام فلسطینی شہریوں کی برہنہ تلاشی، اسیران کے ساتھ ان کے اقارب کی ملاقاتوں پر پابندی اور شہداء کے جسد خاکی غیرمعینہ مدت تک تحویل میں رکھنے جیسے قوانین منظور کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق سال 2018ء کے دوران اسرائیلی فوج کے کریک ڈائون میں 6500 فلسطینیوں‌کو حراست میں لے کر پابند سلاسل کیا گیا۔

فلسطینی محکمہ امور اسیران کے مطابق رواں سال روز مرہ کی بنیاد پر اسرائیلی فوج کے وحشیانہ کریک ڈائون میں 6 ہزار 489 فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا۔ ان میں 1063 بچے 140 خواتین، چھ ارکان پارلیمنٹ اور 38 صحافی شامل ہیں۔ صہیونی عدالتوں سے 988 فلسطینیوں کو انتظامی قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ ان میں 389 نئے اسیران جب کہ 599 کی سزائوں میں‌تجدید کی گئی۔

گرفتاریوں اور پکڑ دھکڑ میں رواں‌ماہ دسمبر سب سےآگے رہا۔ رواں‌ماہ کے دوران قابض فوج نے 675 فلسطینیوں کو حراست میں لیا۔

غرب اردن سے 4495 فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا۔ یہ تعداد کل گرفتار کیے جانے والوں کا 70 فی صد ہے۔ بیت المقدس سے 1803 اور غزہ کی پٹی سے 191 فلسطینی گرفتار کیے گئے۔

خیال رہے کہ اسرائیل کے 22 عقوبت خانوں میں پابند سلاسل چھ ہزار سے زاید فلسطینی طرح طرح کے تشدد کا شکا ہیں۔ اسرائیل بڑے عقوبت خانوں میں‌ نفحة، ريمون، جلبوع، شطة، النقب، عوفر، مجد، هداريم، الرملة، عسقلان اور بئر السبع کی جیلیں شامل ہیں۔