دسمبر اور یادیں

December

December

تحریر: طیبہ شیریں

دسمبر کے آتے ہی کچھ لوگ شاعری کے درد میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔کسی پر ہجر و فراق کی یادوں کا دورہ تو کسی پر یادوں کو یاد کرکے رونے کا وجدان طاری ہو جاتا ہے۔ اکثر لوگوں کے خیال میں دسمبر کا موسم عجیب اداسی اور غمگین یادوں کا ایک ایسا سمندر لاتا ہے کہ جس کے آنے سے دل بوجھل اور آنکھیں اداس ہوتی ہیں۔ اس موسم میں چھائی ایک عجیب اداسی سے اندر اور باہر کے موسم بھی غمگین لگتے ہیں۔ تاہم دسمبر آتے ہی کچھ لوگوں کو شاعری کے دورے بھی پڑتے ہیں۔ دھندلی صبحیں اور اداس شامیں سوگ سی کیفیت طاری کرتی ہیں۔دسمبر اپنے ساتھ جاڑے کی خنک شامیں، یخ بستہ ہوائیں اور بہت سی دل کو گرما دینے والی یادیں لیے چلا آتا ہے۔ سال کا آخری مہینہ ہونے کے ناطے دسمبر ایک طرف جدائی اور ہجر کا استعارہ ہے تو دوسری جانب نئے آنے والے سال کی امید بھی۔

”ایک غزل“جودسمبر کے حوالے سے مجھے بہت پسند ہے۔

ہمارے حال پر رویا دسمبر
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر
گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر
بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا
تمھارے وصل کا پیاسا دسمبر
وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر
یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسے
میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر
جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی
میری تنہائی اور میرا دسمبر

یادیں بھی کچھ عجیب چیز ہوتی ہیں، جو پرانی ہوتی ہیں وہی یادیں کہلاتی ہیں۔ کیوں کہ نئی تو کوئی یاد نہیں ہوتی۔ لیکن یاد پھر بھی کیا عجیب چیزہے۔ ہنساتی ہے، رلاتی ہے، تڑپاتی ہے۔ کبھی کبھی مر جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ کچھ یادیں اندر ہوتی ہیں۔ جب باہر آتی ہیں، کچھ نہ کچھ تباہی ضرور چھوڑ جاتی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ بھول جانا ایک اچھی بات ہے، ورنہ انسان کا ماضی اسے زندہ نہ رہنے دے۔ لیکن یہ بھی دیکھیں کہ خدا نے بھول جانے کے ساتھ انسان کو یاد کرنے کی صفت بھی دے دی۔ کہ بھولو پھر یاد کرو۔ بھولو پھر یاد کرو۔ بھولو پھر یاد کرو۔

لہذا بھولنا انسان کے لیے مفید نہیں اور نہ ہی یاد کرنا نقصان دہ۔ اگریہ دونوں ایک دوسرے کی جگہ بدلتی رہیں۔ اگر مسلسل بھولتے گئے اور یاد نہ کیا تو بھی جینا دشوار۔ اگر مسلسل یاد کیا اور بھولے نہ تو بھی جینا مشکل۔یادیں اچھی ہو یا تکلیف دہ ان سے روز ہی کسی نہ کسی بہانے سابقہ پڑ ہی جاتا ہے۔ کبھی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں تو کبھی مسکراہٹ ہونٹوں کی زینت بن جاتی ہے بادیں اچھی ہوں یا بری بس زندگی ان ہی کی مرہون منت ہے کبھی اپنی غلطیوں کی طرف توجہ ہو جاتی۔
بظاہر ایک چھوٹا سا لفظ ”یاد“ مگر نہیں یہ چھوٹا سہی۔ اس نے اپنے اندر ایک دنیا آباد کر رکھی۔ دنیا، خوشی کی دنیا، غم کی دنیا، مسکراہٹ اور آنسووں کی دنیا، قہقوں اور آہ زاریوں کی دنیا۔ یہ لفظ خوشی کے شادیانوں کے لمحات بھی بھی یہ اپنے اندر رکھتا ہے اور اذیت و کرب کا وقت بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ یہ لفظ دیکھنے میں پڑھنے میں لکھنے میں بالکل بڑا نہیں ہے، لیکن جب اسے محسوس کیا جائے تو یہ جذبات کی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دینے کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے۔ یہ آنکھوں کووضو کرانے کی قوت رکھتا ہے۔ یہ ہونٹوں پر ہنسی بکھیر دیتا ہے۔ یہ لمحے میں تنہا کر دیتا ہے اور پل میں ہمارے اردگرد بھیڑ لگا دیتا ہے۔

ہم گزرے لمحوں کو یاد کرتے ہیں، روتے ہیں ہنستے ہیں، وہ سب اذیت اور کرب کے لمحے جو ہمارے آنکھوں میں مجسم ہو جاتے ہیں جو ہمارے دل کے زمین پر نقش ہو جاتے ہیں۔ آنکھیں بند کر کے جب ان لمحوں کو یاد کیا جاتا ہے تو آنکھیں ہمارے اختیار میں نہیں رہتی۔ خون کی گردش تیز ہو جاتی ہے، دل بند ہونے کا امکان لگتا ہے۔ دماغ سائیں سائیں کرنے لگتا ہے، غرض یوں لگتا ہے وقت تھم گیا، زندگی رک گئی، ہم ایک بار پھر سے اسی گھڑی میں پہنچ جاتے ہیں، وحشت عود آتی ہے! مایوسی چھانے لگتی ہے! اور پھر جب ہم وہ سب دہرا کر اپنی زندگی کی حقیقتوں میں واپس آتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یادیں ہمیں کھنچ کر کہاں لے گئیں تھیں۔

یہی یاد جب ہمیں خوشی کے شادیانوں میں لیے جاتی ہیں، زندگی کے لمحے حسین ہو جاتے ہے، دل جینے پر آمادہ ہو جاتا ہے، جذبات احساسات میں ہلچل مچ جاتی ہے، لیکن یہ ہلچل ہمیں خوشی اور فرحت کا احساس مہیا کر دیتی ہے۔ بے اختیار لبوں پر مسکراہٹ رقص کرنے لگتی ہے۔ مایوسی کے بادل چھٹنے لگتے ہیں، وقت تیزی سے گزرنے لگتا ہے اور کتنی ہی دیر تک یہ احساسات ہم پر حاوی رہتے ہیں، ہمیں سکون پہنچاتے اور آسودگی مہیا کرتے ہیں۔

یادیں سرمایہ بھی ہوتی ہیں اور کمزوری بھی ، یہ ہمیں مضبوط بھی کرتی ہیں اور ہماری توڑ پھوڑ بھی جاری رکھتی ہیں۔ غرض یادوں کا طوفان اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ہماری زندگی میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یاد چیزوں سے وابستہ ہو یا لوگوں سے۔ کسی پیارے کے دائمی جدائی کا دکھ ہو کسی کے ساتھ گزرے حسین لمحے، ہمارے اندر کی دنیا میں ایک طوفان آتا ہے اور آکر گزر جاتا ہے۔ پھر سب کچھ ساکت و جامد ہو جاتا ہے، سفر جاری ہو جاتا ہے اور یادیں بنتی رہتی ہیں اور پھر یادوں کا یہ سلسلہ جو ہمارے ہوش میں آنے سے شروع ہو جاتا ہے تو سانس ختم ہونے پر یہ بھی اپنا اختتام کر دیتا ہے۔ اس طرح ہم سے وابستہ لوگوں میں ہماری ساتھ گزری وہ تمام یادیں منتقل ہو جاتیں ہیں پھر وہ ہمیں یاد کرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ گزرے اچھے ب ±رے لمحات اور زندگی کی گاڑی یادوں کا سفر ساتھ لیے یونہی جاری رہتی ہے۔

تحریر: طیبہ شیریں