بنگلہ دیش: رائے دہی کے دوران دھاندلی کے الزامات

Bangladesh Elections

Bangladesh Elections

بنگلہ دیش (جیوڈیسک) بنگلہ دیش کے پارلیمانی انتخابات میں ووٹنگ کا عمل تشدد اور بے قاعدگیوں کے الزامات کے ساتھ ختم ہو گیا ہے۔ دونوں اہم جماعتیں ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات عائد کر رہی ہیں۔ ووٹوں کی گنتی شروع ہو گئی ہے۔

بنگلہ دیش کے الیکش کمیشن نے نے اعلان کیا ہے کہ انتخابی عمل میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیق شروع کر دی گئی ہے اور ثابت ہونے پر کارروائی کی جائے گی۔ اس بیان میں مزید بتایا گیا کہ ووٹوں کی گنتی پیر تک مکمل کر لی جائے گی۔

اطلاعات کے مطابق رائے دہی کے عمل کے دوران تصادم کے کئی واقعات رونما ہوئے ، جن میں پولیس کے مطابق کم از کم سترہ بارہ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس نے بتایا ہے کہ حکمران جماعت عوامی لیگ اور حزب اختلاف کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے کارکنوں نے ملک کے مختلف حصوں میں ایک دوسرے پر حملے کیے۔ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات عائد کر رہی ہیں۔

اتوار کو ہونے والے انتخابات میں قوی امید ہے کہ شیخ حسینہ تیسری مدت کے لیے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم منتخب ہو جائیں گی۔ اس سے قبل کئی ہفتوں طویل انتخابی مہم کے دوران پرتشدد واقعات رونما ہوئے، ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی جبکہ اپوزیشن کے ہزاروں کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔ اسی لیے چند ماہرین انتخابات کو شیخ حسینہ کا ریفرنڈم قرار دے رہے ہیں۔

عوامی لیگ کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو انتخابی مہم چلانے میں کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں رہا جبکہ سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ( بی این پی) کا دعویٰ ہے کہ نومبر میں انتخابی تاریخ کے اعلان کے بعد سے اب تک اس کے ساڑھے دس ہزار کارکنوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔

شیخ حسینہ 1980ء سے عوامی لیگ کی سربراہ ہیں۔ عوامی لیگ 2008ء سے اقتدار میں ہے۔ حسینہ کی سب سے بڑی حریف خالدہ ضیاء ہیں۔ خالدہ ضیاء آج کل بدعنوانی کے ان الزامات کے تحت جیل میں ہیں، جنہیں وہ مسترد کرتی ہیں۔ بی این پی نے 2014ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔

ضیاء اور شیخ حسینہ دونوں ہی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائر رہ چکی ہیں۔ شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمن کو جدید بنگلہ دیش کا بانی کہا جاتا ہے۔ پندرہ اگست 1975 کو فوجی بغاوت کے دوران شیخ مجیب کو اہل خانہ سمیت قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد بنگلہ دیش پر پندرہ سال تک فوج نے حکومت کی۔ 1990ء میں اس ملک میں جمہوریت واپس لوٹی تاہم ملک کا سیاسی منظر نامہ ابھی تک نازک مراحل طے کر رہا ہے۔

حکام نے سلامتی کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سات لاکھ اہلکار تعینات کیے تھے۔ بنگلہ دیش کی 160 ملین کی آبادی میں تقریباً 104 ملین ووٹ دینے کے اہل ہیں۔ حکومت نے ملک بھر میں بیالس ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کیے تھے۔