اسلامی دنیا کا اپنا مزاج اور مائنڈ سیٹ ہے جوکہ جدید جمہوری روایات میں بھی اپنی الگ دنیا بسائے ہوئے ہے۔اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے ۔وہ اپنی دنیا کے خول میں قید ہے اور بیرونی دنیا سے بالکل لا تعلق ہے۔۔ان کے رویوں میں ظلم و جبر کی جو روح موجزن ہے وہ کسی بھی حالت میں کم نہیں ہوئی ۔صدیوں سے روایات کا جو تسلسل ہے وہ اپنی جگہ پر موجود ہے۔جمال خشوگی جیسے صحافی کا قتل کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ جبریت اپنی ساری حشر سامانیوں کے ساتھ آج بھی موجود ہے۔ ایک صحافی کو سفارت خانے کے اندرقتل کرنا اور جسم کے ٹکرے کر کے کسی گھڑے میں چھپا دینا کیا کسی مہذب جمہوری ملک میں ممکن ہے؟اسلامی دنیا میں کہیں پر شہنشاہیت کا راج ہے ، کہیں پر طالع آزمائوں کا سکہ چل رہا ہے،کہیں پر قبائلی نظام رو بعمل ہے اور کہیں پر فوج کے آہنی ہاتھوں کاشکنجہ ہے۔مشرقِ وسطی شہنشاہیت کی گرفت میں ہے جبکہ برِ صغیر کے مسلم ممالک (پاکستان اور بنگلہ دیش) وقفوں وقفوں سے طالع آزمائوں کا گہوارا بنے رہے ہیں۔
افریقہ میں بھی کئی ممالک شہنشاہیت اور فوجی جنتا کے پنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ کچھ ممالک میں انتخابات بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے بعد اپوزیشن کا جو حشر کیا جاتا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ مسلم دنیا میں ترکی مصر اور ایران انتہائی اہم ممالک تصور ہوتے ہیں ۔ اس وقت ترکی کے لیڈر طیب اردگان سیاہ و سفید کے مالک ہیں لیکن انھوں نے اپنے مخالفین سے جس طرح جیلیں بھری ہوئی ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ طیب اردگان ترکی میں مقبول ہیں اور عوام ان سے محبت بھی کرتے ہیں لیکن ان کے اقدامات میں بھی وہی پرانی روش دکھائی دیتی ہے جو اسلامی دنیا کے اکثر حکمرانوں کا طرہِ امتیاز ہے۔سمجھ نہیں آتی کہ مسلم دنیا میں اپوزیشن کو برداشت کرنے کا مادہ کیوں نہیں ہے؟جو اقتدار کی مسند پر برا جمان ہو تا ہے وہ خود کو صالح جبکہ مخالفین کو غدار، وطن دشمن اور کرپشن کا مجرم کہہ کر جیلوں میں بند کر دیتا ہے ۔
اب دنیا میں شہنشائیت نہیں بلکہ جمہوریت اپنی جڑیں پکڑ رہی ہے جس میں برداشت اور تحمل کا مظاہرہ لا ینفک ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں وہی شہنشاہانہ روش کا ظہور جس میں کچل دو کا نعرہ سرِ فہرست ہوتا ہے۔یہ سچ ہے کہ ملوکانہ دور میں لوگوں کواذیتیں دی جاتی تھیں اور راج پاٹ کیلئے خون بہانا معمول کے واقعات تصور ہوتے تھے لیکن جدید دور میں یہ سب قصہ پارینہ ہیں اور جدید ریاستیں اس طرح کے رویوں سے تائب ہو چکی ہیں ۔ مغرب میں بھی رجعت پسندی ایک حقیقت تھی لیکن اس نے جمہوری کلچر سے خود کو سنبھالا اور انتقامی رویوں سے خود کودور کر لیا جس کی بدولت ترقی اور خوشخالی کے دروازے ان پر کھل گئے لیکن مسلم دنیا میں مخالفین کو کچلنے اور انھیں نیست و نابود کرنے پر ساری توانائیں صرف ہو تی ہیں۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے لیکن مسلم دنیا کے حکمران اب بھی اپنے مخالفین کی گردن دبوچنے سے باز نہیں آ رہے جس سے وقفے وقفے سے انتشار اور افراتفری کے مظاہرے دیکھے جا سکتے ہیں۔،۔
انور سادات اور حسنی مبارک کی بد ترین آمر یت کے بعدڈاکٹر محمد مرسی صدارتی منصب پر منتخب ہوئے تو امریکہ بہادر کو ان کی جیت پسند نہ آئی لہذا عالمی سازش کے تحت ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور فوجی طالع آزما فتح السیسی کو اقتدار سونپ دیا گیا ۔اسرائیلی سازش اور امریکی اشیر واد سے فوجی انقلاب رو بعمل ہوا اور وہ لیڈرشپ جو صدارتی انتخابات جیت کر قوم کی امیدوں کا مرکز بنی تھی اسے جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں پھینک دیا گیا ۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ اسرئیل کو تسلیم کرنے اور امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے روادار نہیں تھے۔ فتح السیسی کا اقتدار تبھی قائم رہ سکتا تھا کہ اپوزیشن جیلوں میں محبوس رہے۔ایران میں بھی مذہبی پیشوائیت بر سرِ اقتدار ہے لہذا وہاں پر اپو زیشن کا کوئی وجود نہیں ہے۔کسی کوحکومت کے خلاف جلسے جلو سو ں کی اجازت نہیں ہے ۔
کسی زمانے میں شاہِ ایران سیاہ و سفید کے مالک ہوا کرتے تھے اور ان کی چشمِ آبرو سے ایران کے سارے فیصلے صادر ہوتے تھے لیکن اب وہ قصہِ پارینہ ہیں۔اسلامی دنیا میں ایک مائنڈ سیٹ ہے جس میں انایت اور ذاتی ایغو ہر شہ کو اپنی گرفت میں دبوچ لیتا ہے ۔کل شاہِ ایران کا سکہ چلتا تھا لیکن اب مذہبی پیشوائیت کا سکہ چل رہا ہے ۔ دونوں میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ مخالفین کو سانس لینے کی اجازت نہیں ہے ۔جو حکومت کا مخالف ہو گا اس کا ٹھکانہ جیل کی چارویواری ہوگی۔ پاکستان میں بھی اسی مائنڈ سیٹ کاراج ہے۔یہاں پر بھی مخالفین کا ناطقہ بند کیا جا تا ہے۔جیسے ہی حکومت بدلتی ہے مخالفین کا جینا دوبھر ہو جاتا ہے اور حکمرانوں کا سارا زور مخالفین کو جیلوں میں مقید کرنے پر صرف ہو تاہے ۔کچھ ا لزامات میں صداقت بھی ہو تی ہوگی لیکن اکثر الزامات محض مخالفین کو بدنام کرنے کی خاطر کئے جاتے ہیں۔جب سیاستد انوں کی لڑائیاں اپنی حدود سے تجاوز کرنے لگتی ہیں تو پھر کوئی طالع آزما سب کا بوریا بستر گول کر کے اقتدار پر خود قابض ہو جا تا ہے اورپکڑا پکڑائی کا کلچر ایک دفعہ پھر پورے جوش و جذبہ سے نافذ ہو جاتا ہے۔جو طالع آزمائوں کے ہمنوا ہو جاتے ہیں وہ چھوٹ جاتے ہیں لیکن وہ جو انسانی حقوق اور جمہوریت کے علمبردار ہوتے ہیں ان کا مقدر جیلیں،صعوبتیں اور سزائیں ہی بنتی ہیں ۔
یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاںجمہوری ادوار میں بھی احتساب،جوابدہی ، تحمل اور برداشت کا کلچر پروان نہیں چڑھ سکا ۔پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار اس کی بین مثالیں ہیں ۔ مقدمات،گرفتاریوں اور سزائوں کے کلچر نے ملکی معیشت اور جمہوری نظام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ۔جلا وطنی اور ملک سے غیر حاضری جب ناقابلِ برداشت ہو گئی تو میثاقِ جمہوریت کا ڈول ڈالا گیا لیکن اقتدار کے نشہ میں اس تاریخی دستاویز کو بھی غیر اہم سمجھ کر پسِ پشٹ ڈال دیا گیا۔اس میں قصور کسی ایک جماعت کا نہیں ہے بلکہ اس میں دونوں بڑی جماعتوں کے رویے قابلِ اعتراض ہیں۔وہ قوانین جو ملک کیلئے ناگزیر تھے انھیں نظر انداز کیا گیا۔احتساب کا کوئی موزوں نظام قائم نہ ہو سکا ۔کرپشن کے گھوڑے کو لگام نہ دی جا سکی ۔ جوابدہی کا کوئی شفاف انتظام نہ ہو سکا ۔کرپشن کے بے لگام گھوڑے نے جس طرف بھی منہ اٹھا کر سفر کرنے کی ٹھانی اس میں دولت کا حصول اور بیرونِ ملک جائدادیں بنانے کا جنون سر پر سوار رہا اور منی لانڈرنگ سے جائدادیں خریدنے کا جذبہ سرد نہ ہو سکا۔ملک کی حالت پتلی ہوتی چلی گئی ۔ عوام غریب سے غریب تر ہو تے گئے جبکہ اشرافیہ دولت کی دیواریں کھڑی کرتی رہی۔
ان کی زندگی کا محور دولت کے انبار لگانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا ۔جب دولت الہ بن جائے تو پھر قانون و انصاف کی بجائے دولت کی ہوس نگاہوں میں بس جاتی ہے۔پاکستان روزِ اول سے ہی اشرافیہ کی زد میں رہا ہے لہذا دولت صرف انہی کے ہاتھوں میں گردش کرتی رہی ہے ۔اشرافیہ کیلئے جماعتیں بد لتے رہنا اور اقتدار کو اپنی مٹھی میں بند رکھنا ان کا محبوب مشغلہ رہاہے۔وہ ہر حکمران کی آنکھ کا تارا بن جاتے ہیں ، وہ دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹتے ہیں لیکن کسی کے ہاتھ نہیں آتے۔چاپلوسی اور خوشآمد ان کی گھٹی میں شامل ہو تی ہے لہذا حکمران بھی انھیں اپنا دم چھلا بنانے میں عافیت محسوس کرتے ہیں ۔ اشرافیہ کی حقیت جاننی ہو تو پچھلے تین ادوار کو نگاہوں کے سامنے لے آئیے حقیقت خود بخود واضح ہو جائیگی ۔وہ ہر حکومت میں وزارتی اور مشاورتی پوزیشن پر برا جمان ہو جاتے ہیں اور دولت ان کے گھر کی باندی بن جاتی ہے۔حیران کن بات تو یہ ہے کہ احتساب کے اس شور شرابہ میں وہ بالکل محفوظ و مامون ہو کر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں جبکہ سر اٹھاکر چلنے والے نشانہ پررکھے جا تے ہیں۔حریت پسند وں کوپھانسیوں،جیلوں اور صعوبتوں کا سزاوار بنایا جاتا ہے جبکہ اشرافیہ کیلئے پھولوں کی سیج سجائی جاتی ہے۔وقت آگیا ہے کہ اس روش کو خیر باد کہہ کر اقتدار عوام کے حقیقی نمائندوں کو منتقل کیا جائے۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال