سید ابوالحسن علی ندوی اور بچوں کا ادب

Syed Abul Hasan Ali Nadvi

Syed Abul Hasan Ali Nadvi

تحریر: عتیق الرحمن

معاشرے کا پھلنا اور پھولنا یا تعمیر و ترقی کی منازل طے کرنا مرتبط ہے اس کی نئی نسل کے ساتھ۔بچوں کی تعلیم و تربیت جس نہج پر ہوگی اسی سے ظاہر ہوجائے گا کہ آیا یہ قوم دنیا میں اپنا لوہا منوا سکے گی یا نہیں۔قرآن و سنت میں جابجا بچوں کی تعلیم تربیت کے مدارج و ترتیب کو بیان کیا گیا ہے۔بچوں کو کھانا پینا ،سونا اور جاگنا، کھیلنا اور پڑھنا ،خوشی و غمی سمیت کوئی ایسا امر نہیں ہے کہ شریعت اسلامی نے اس کے متعلق رہنمائی نہ کردی ہو۔ رسول اللہۖ نے بچوں پر شفقت کرنے کا حکم دیا اور بچوں پر رحم کرنے کا حکم بھی دیا ۔ اسی جگہ بچوں کو بڑوں کی تعظیم و توقیر کا بھی حکم دیا ۔والدین کا ادب و احترام اور ماں کے قدموں کے نیچے جنت اور باب جنت کا دروازہ اس لیے قرار دیا گیا کہ ان کو رازی کیے بغیر نہ تو اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہوسکتی ہے اور نہ ہی جنت میں داخلے کی اجازت۔بچپن کا میلان و رغبت پتھر پر لکیر کے مترادف ہے کہ وہ کسی بھی آفت کے ساتھ مندمل نہیں ہوسکتی۔اسی بناپر بچوں کو عبادت کی طرف راغب کرنے کا بھی حکم دیا گیا۔چودہ سوسال سے نبی کرمۖ کے بعد صحابہ کرام،تابعین عظام ،اولیاء اللہ اور سلف الصالحین و علماء برابر کوشش کرتے رہے کہ معاشرے کہ بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دی جائے تاکہ ان کا اپنا اور ان کی قوم کا مستقبل روشن و تابناک ہوجائے۔

اولین مسلمانوں کا شعار رہاہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا مکمل انتظام گھر کے اندر ہی کردیا کرتے کہ ماں کی گود پہلی درس گاہ قرار پاتی اور باپ سے بھی دینی و دنیا وی تعلیم کا سبق حاصل کیا جاتا۔ماضی قریب کی عظیم ترین مثال سیدابوالحسن علی ندوی کی ہے کہ انہوں نے رائے بریلی میں جس خانوادہ حسنی میں آنکھ کھولی تو اس خاندان کی مائیں بہنیں اور خلائیں اور پھپوئیں سبھی حافظ قرآن تھیں اور اپنے بچوں کو دین سے راغب کرنے کے لیے برابر مستورات کی محافل کا انتظام کیا جاتاجس میں قرآن کریم کی تلاوت،نعت رسولۖ ،اولین مسلمانوں کے شاندار کارناموں کو بیان کرنا شعار ہوتاتھا تاکہ بچے غیر محسوس انداز سے فطرت سلیم اور اچھی و بھلی زندگی بسر کرنے کی خاطر انبیائ، صحابہ اور تابعین کی سنتوں پر زندگی بسر کریں۔سید ابوالحسن علی ندوی ندوة العلماء کے سرخیل مئورخ و محدث اور عالم کبیر سید عبدالحی حسنی ندوی کے گھر میں سن 1913ء پیدا ہوئے اور ان کی والدہ ماجدہ سیدہ خیرالنساء تھیں ۔ سید ابولحسن علی ندوی کا نام تو علی رکھا گیا مگر شہرت کنیت ابوالحسن سے پائی۔سید صاحب کا ننھیال و ددھیال دونوں جانب سے علمی و دینی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔

سید ابوالحسن علی ندوی نے ابتدائی تعلیم گھر ہی میں حاصل کی اور صغر سنی میں یتیم ہوگئے تو برادرکبیر ڈاکٹر سید عبدالعلی کے زیر سایہ اور والدہ ماجدہ کی نگرانی میں تعلیم و تربیت پائی۔پاکیزہ گھرانے کی تربیت کا اثر ہے کہ ایک صدی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے مگر دنیا بھر میں شرق ہو یا غرب ،عرب و عجم میں ان کی داعیانہ اور مجتہدانہ اور مئورخانہ اور عالمانہ زندگی کا آج بھی شہرہ قائم وداء ہے۔سید ابوالحسن علی ندوی نے اپنی مکمل زندگی اشاعت اسلام میں وقف کردی ۔دنیا بھر میں دعوت و تبلیغ اور انسانیت و اسلامیت کا درس دیتے رہے ۔ معاشرے کا کوئی طبقہ نہیں کہ جس کو مخاطب کرنے میں سید ابوالحسن علی ندوی نے پس و پیش سے کام لیا ہواسی وجہ سے ان کو دنیا بھر میں شاہ فیصل ایوارڈ اور داعی اسلام ایوارڈ سعودی عرب و دوبئی میں جاری ہوئے اور عرب و عجم اور یورپ کی بڑی بڑی جامعات میں کلیدی ذمہ داریاں نبھانے کا موقع میسر آیا اس بناپر مئورخ انہیں مفکر اسلام اور داعی اسلام کہنے پر مجبور ہوگیا۔سید ابوالحسن علی ندوی نے جہاں مسلمان معاشرے کی تربیت و اصلاح پر توجہ دی اور اس سلسلہ میں خطابات و کتب کو اپنا ہتھیا بنایا وہیں پر بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی بہت زیادہ زور دیا کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ بچہ جس بھی فکر و پیغام کا داعی ابتدائی عمر میں ہوجاتاہے اس کو لڑکپن ہو یا جوانی یا پھر بڑھاپا اس پیغام اول کو فروگذاشت نہیں کرسکتا۔

سید ابوالحسن علی ندوی نے دینی و عصری جامعات کے طلباء خواہ برصغیر پاک و ہند کے ہوں یا عرب و مغرب کے ان سب کے نام اپنا پیغام حق سنا یا اس سلسلہ میں انہوں نے ”پاجا سراغ زندگی”،”طالبان علوم نبوت کا مقام’،”علماء کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں”،”مغرب میں صاف صاف باتیں”،”امریکہ میں صاف صاف باتیں”،”اسلامیت و مغربیت کی کشمکش”اور انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر سمیت درجنوں کتب تالیف کیں جن سے تاابد الاباد مسلم نوجوان فکری و نظریاتی آبییاری حاصل کرتے رہیں گے۔اسی طرح سید ابوالحسن علی ندوی نے بچوں کے ادب و کو بھی اپنے ذہن سے محو نہیں ہونے دیا بلکہ انہوں نے کثیر تعداد میں بچوں سے متعلق بھی کتب تحریر کیں اور خطابات بھی کیے تاکہ والدین اور اساتذہ پر بچوں کی تعلیم و تربیت کے مراح آسان و بین ہوجائیں۔انہوں نے بچوں کی دینی و فکری تربیت کے لیے” القراء ة الراشدہ”تحریر کی جس میں نظم و نثر کا انداز اختیار کرکے بچوں کو اسلاف کی سیرت اور چرند و پرند وںکے معمولات سے واقف کرکے انہیں توحید و ایمان اور عمل صالح کا پیغا م دیا ۔

انہوں نے” قصص النبین ”کے نام سے مختصر کتب کا مجموعہ تحریر کیا جس میں انبیاء علیھم السلام کی حیات ومعمولات کو بیان کرنے کے ساتھ ایمان و ایقان کے میدان میں تکالیف و مصائب میں سے گزر کر اولوالعزمی کی زندگی بسر کرنے کا پیغام شاندار انداز میں بیان کردیا کہ بچے خوشی و غمی کے حالات کا مقابلہ سیرت انبیاء کی روشنی میں کرنا سیکھیں۔اسی طرح سید ابولحسن علی ندوی کی تحریروں کا مجموعہ دعوة اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نے شائع کیا جس میں بچوں کی ولادت،بلوغ ،ازدواجی زندگی،معاملات و عبادات اور مرنے تک کے مراحل سے متعلق سلیس اور آسان زبان میں کلام کیا گیا ۔اسی طرح بچوں اور بڑوں پر سیرت نبیۖ کا منفرد دریچہ کھولا کہ” آپۖ کی دعائیں”پڑھ کر اپنی حیات کو باسعادت کیسے بنا جا سکتاہے ۔اسی طرح سید صاحب نے ”اسلا م کا تعارف”،”سیرت النبی لااطفال”،”مختارات الادب”،”کاروان مدینہ” اور نبی رحمت سمیت متعدد کتب تالیف کیں۔سید صاحب کی متعدد کتب اگرچہ عربی میں تالیف ہوئی ہیں تاہم ان کی کتب کے تراجم اردو زبان میں بھی موجود ہیں لہذا ان سے استفادہ حاصل کرنا بہر صورت ممکن ہے۔

مندرجہ بالا کتب اور دیگر کتب سے مسلم علماء اور طلبا کے ساتھ اساتذہ اور والدین رہنمائی حاصل کرکے ناصرف بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہتر و مناسب انتظام کرسکتے ہیں بلکہ خود بچوں کو متعدد آسان اور عام فہم کتب کا مطالعہ بھی کرواسکتے ہیں کہ بچے مختصر مختصر کہانیاں، نظم و نثر کے انداز سے متمتع ہر کر غیر محسوس انداز سے اسلامی و اخلاقی اور ملی تربیت حاصل کرپائیں گے۔سید ابوالحسن علی ندوی بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق بہت فکر مند تھے ۔فرمایا کرتے تھے کہ”بچوں کو کھانا کھلانے، لباس پہنانے،علاج و معالجہ کرنے اور سیر و تفریح کرانے سے زیادہ ضروری ہے کہ بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کا انتظا م کیا جائے ”۔یہ فکرمندی اس لیے تھی کہ مستقبل کے معمار یہی بچے ہی ہیں اگر بچوں کی تربیت درست خطوط پر استوار کردی گئی تو تادم زیست وہ ملک و ملت کے لیے کامرانی و اقبال مند کا پیکر ثابت ہونگے ۔ بجز اس کے خسران و ذلت میں ملک و قوم گرفتار ہوجائے گی۔اللہ تعالیٰ تمام اہل اسلام کو سید اابولحسن علی ندوی کی کتب و خطابات سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے اور مفکر اسلام سید ابوالحسن جو 31دسمبر 1999ء کو دنیا سے رحلت فرماگئے تھے کو قبر میں کروٹ کروٹ راحت عنایت فرمائیں اور ان کے مرقد کو جنت کے باغوں میں سے باغ بنائے۔آمین

Atiq ur Rehman

Atiq ur Rehman

تحریر: عتیق الرحمن