جرمنی (جیوڈیسک) جرمن سربراہ حکومت نے ملکی عوام سے اپنے سال نو کے پیغام میں، جو آج اکتیس دسمبر پیر کی شام ٹیلی وژن سے نشر کیا جا رہا ہے، کہا کہ جرمنی اور جرمنوں کو اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لاتے ہوئے اور ایک مثبت سوچ کے ساتھ نئے سال 2019ء میں بھی یورپی یونین کو مزید مضبوط بنانے کے لیے کام کرتے رہنا ہو گا۔
جرمن چانسلر کا سال نو کے موقع پر قوم سے کیا جانے والا یہ سالانہ خطاب یوں تو ایک روایت ہے لیکن یورپی اور بین الاقوامی سیاست میں جرمنی کے کردار اور مقام کی وجہ سے اسے ہر بار ہی داخلی اور خارجہ دونوں سطحوں پر بڑی توجہ سے سنا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں اپنے خطاب میں انگیلا میرکل نے اعتراف کیا کہ آج ختم ہونے والا سال دو ہزار اٹھارہ ایک بہت مشکل سال تھا۔ اس سے ان کی مراد جرمنی اور یورپی یونین کی سال رواں کے دوران داخلی سیاسی صورت حال بھی تھی اور بیرونی دنیا میں پائے جانے والے وہ کئی بحران بھی، جنہیں فوری طور پر حل کیا جانا چاہیے۔
گزشتہ تیرہ برسوں سے وفاقی چانسلر کے عہدے پر فائز انگیلا میرکل نے اپنے اس خطاب میں کہا کہ اس امر سے قطع نظر کہ موجودہ سال کتنا بھی غیر تسلی بخش تھا، ایک حقیقت کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کی جانا چاہیے، ’’جمہوریت تو تبدیلیوں سے ہی پھلتی پھولتی ہے۔‘‘
انگیلا میرکل ہیلموٹ کوہل کے بعد پہلی مرتبہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی نگران سربراہ بنی تھیں۔ انہیں اس سیاسی پارٹی کی قیادت کو اب تقریبا سترہ برس ہو چکے ہیں جبکہ انہوں نے سن دو ہزار پانچ میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا۔
ماہرین کے مطابق اس موقف سے میرکل کا ایک اشارہ اس طرف بھی تھا کہ اسی سال انہوں نے قریب سولہ برس تک اپنی قدامت پسند جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کی قیادت سنبھالے رکھنے کے بعد ان ذمے داریوں سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
میرکل جو اس وقت اپنے حکومتی عہدے کی چوتھی مدت پورا کر رہی ہیں، کہہ چکی ہیں کہ چانسلر کے طور پر اپنی ذمے داریوں کا موجودہ عرصہ مکمل ہو جانے کے بعد وہ دوبارہ اس عہدے کے لیے امیدوار نہیں ہوں گی۔
اپنے ہم وطنوں سے سماجی سطح پر زیادہ یکجہتی اور باہمی اتحاد کی اپیل کرتے ہوئے انگیلا میرکل نے مزید کہا کہ مشکلات کیسی بھی ہوں، ان پر قابو اسی وقت پایا جا سکتا ہے جب دوسروں کے ساتھ حدود و قیود سے بھی آگے تک جا کر تعاون کیا جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ نئے سال دو ہزار انیس میں ماحولیاتی تبدیلیوں، ترک وطن سے متعلقہ مسائل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسے امور کلیدی اہمیت کے حامل ہوں گے۔
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
کل یکم جنوری سے شروع ہونے والے نئے سال کی ایک خاص بات یہ بھی ہو گی کہ جرمنی منگل کے دن سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن ملک کے طور پر اپنی ذمے دارایاں سنبھال لے گا۔
اس بارے میں جرمن سربراہ حکومت نے کہا کہ نئے سال میں اگلے دو برسوں کے لیے عالمی سلامتی کونسل کی رکنیت کی وجہ سے جرمنی کے سیاسی قد کاٹھ میں بھی مزید اضافہ تو ہو گا لیکن ساتھ ہی برلن کے کندھوں پر پڑنے والی ذمے داریاں بھی بہت بڑھ جائیں گی۔
اس تناظر میں میرکل نے اپنی سوچ کے اظہار کے لیے ان الفاظ کا انتخاب کیا، ’’ہماری اقدار، کھلے پن، برداشت اور دوسروں کے لیے احترام کی وجہ سے، جن پر ہمارا یقین بہت پختہ ہے، ان پر عمل کرتے ہوئے ہم (سلامتی کونسل کی رکنیت کے ذریعے) ایسی تبدیلیوں کے لیے کوشاں رہیں گے، جو اچھی بھی ہوں گی اور بہتر بھی۔‘‘